اربوں روپے کی مشکوک ٹرانزیکشنزکی تحقیقات التوا کا شکار

اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے ارسال کردہ اربوں روپے کی مشکوک بینک ٹرانزیکشنز کی درجنوں رپورٹوں پر ایف بی آر میں تحقیقات التوا کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے رقوم کی مشکوک منتقلی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے پاکستان کے تمام نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے بینک اکائونٹس میں آنے اور جانے والی رقوم پر نظر رکھی جاتی ہے اور رقوم کی مشکوک منتقلی کی رپورٹیں ایک طے شدہ نظام کے تحت تحقیقات کیلئے ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن اِن لینڈ ریونیو کے علاوہ ایف آئی اے، نیب اور اینٹی نارکوٹیکس فورس کے حکام کو بھی بھیجی جاتی ہیں۔ تاہم زیادہ تعداد میں ایس ٹی آرز (Suspicious. Transaction Reports) ایف بی آر کے آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ جنرل کو اسلام آباد میں ارسال کی جاتی ہیں، جہاں سے ان رپورٹوں کو آئی اینڈ آئی اِن لینڈ ریونیو کے متعلقہ زونل ڈائریکٹوریٹس کو ارسال کردیا جاتا ہے، تاکہ ان پر مزید تحقیقات کی جاسکیں۔ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کی جانب سے ارساکردہ ایس ٹی آرز اگر صوبہ سندھ سے تعلق رکھتی ہوں تو اسلام آباد ڈی جی آئی اینڈ آئی کے دفتر سے ان ایس ٹی آرز کو ڈائریکٹوریٹ آئی اینڈ آئی اِن لینڈ ریونیو کراچی یا حیدرآباد میں ارسال کردیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں نجی بینکوں کے اکائونٹس ہولڈرز کے اکائونٹس میں آنے اور جانے والی رقوم کی ٹرانزیکشنز کی موصول ہونے والی Cash Transaction Reports (CTR کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں بیٹھے ہوئے افسران اس کا تعین کرتے ہیں کہ کون سی Cash Transaction Reports (CTR کی رپورٹ ممکنہ طور پر منشیات سے کمائی ہوئی رقم کی ہوسکتی ہے یا پھر ٹیکس چوری، کالے دھن اور کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اس کیش ٹرانزیکشن رپورٹ یعنی سی ٹی آر کو دوسرے مرحلے میں ایس ٹی آر یعنی Suspicious. Transaction Reports کا درجہ دے کر متعلقہ اداروں کو ارسال کردیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ اگر آمدنی سے زائد اثاثوں، ٹیکس چوری یا منی لانڈرنگ سے متعلق ہو تو اس کو ایف بی آر اور ایف آئی اے کو بھیجا جاتا ہے۔ اور اگر یہ رپورٹ ممکنہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے ہو تو اس کو اینٹی نارکوٹیکس فورس کو بھیجا جاتا ہے، جبکہ کالے دھن اور کرپشن سے متعلق رپورٹیں نیب حکام کو ارسال کردی جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت بھی ایف بی آر کے انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن اِن لینڈ ریونیو میں 10 درجن سے زائد ایس ٹی آرز (Suspicious. Transaction Reports) تحقیقات کے لئے موجود ہیں، تاہم ان پر تحقیقات کی رفتار اس قدر سست ہے کہ انہیں نتیجہ خیز بنانے کیلئے مزید کئی مہینے اور سال درکار ہیں۔ ذرائع کے بقول اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے 30 ماہ قبل تک Suspicious. Transaction Reports جاری ہونے کی رفتار بھی بہت سست تھی اور کم تعداد میں ایس ٹی آرز اداروں کو جاری ہوتی تھیں۔ تاہم تین ماہ قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا وفد پاکستان آیا اور اسٹیٹ بینک حکام، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔ یہ ملاقاتیں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اس اجلاس کا تسلسل تھا، جس میں پاکستان کے حوالے سے فنڈز کی غیر محفوظ منتقلی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کی بات کی گئی تھی۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کی مرتب کردہ سفارشات پر مکمل عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ ذرائع کے بقول انہیں ملاقاتوں کے بعد اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے مذکورہ بالا اداروں کو ایس ٹی آرز ارسال کرنے کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی دوران کئی مزدوروں اور غریب شہریوں کے بینک اکائونٹس میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کا بھی انکشاف ہوا، جس میں فیکٹریوں کے ورکز، فالودہ فروش، چات فروش اور رکشہ ڈرائیور وغیرہ شامل تھے۔
ذرائع کے بقول ایف اے ٹی ایف کی سخت سفارشات اور متعلقہ حکام سے ملاقاتوں کے بعد پاکستان کے نجی بینکوں کے کھاتے داروں کی جانب سے کی جانے والی ٹرانزیکشنز کی مانیٹرنگ تو سخت کردی گئی ہے اور ان کی رپورٹنگ بھی مسلسل کی جا رہی ہے تاہم متعلقہ اداروں میں ان رپورٹوں پر مزید تحقیقات کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ اس ضمن میں نہ تو ایف بی آر میں افرادی قوت میں اضافہ کیا گیا اور نہ ہی ایف آئی اے اور نیب میں متعلقہ شعبوں کے افسران کو مذکورہ Suspicious. Transaction Reports پر ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات آگے بڑھانے کیلئے احکامات جاری کئے گئے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ان اداروں میں خصوصی طور پر ایف بی آر آئی اینڈ آئی اِن لینڈ ریونیو میں ان ایس ٹی آرز کی بھرمار ہوتی جارہی ہے۔
ذرائع کے بقول رواں ماہ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے کئی نئی ایس ٹی آر تحقیقات کیلئے ایف بی آر کو ارسال کی گئی ہیں، جن میں پاکستان کے ایک بڑے بزنس گروپ سے تعلق رکھنے والے خاندان کے افراد کی جانب سے کروڑوں روپے مالیت کے برطانوی پائونڈز خرید کر انہیں بیرون ملک منتقل کرنے کی ایس ٹی آر بھی شامل ہے، جس میں تحقیقات کرنے والوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں اس رقوم کی منتقلی کی جانچ پڑتال مشکوک معلوم ہوئی ہے اور امکان ہے کہ رقم کی یہ منتقلی غیر قانونی تھی اور اس کے ذریعے کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے ۔
اس کے ساتھ ہی تین دیگر ایس ٹی آرز بھی تحقیقات کیلئے ایف بی آر کو اسال کی گئی ہیں، جن میں علی خان، آصف علی گوہر اور آدم خان جوکھیو کے حوالے سے بھاری رقوم کی منتقلی کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کے اکائونٹس سے کروڑوں روپے کی رقوم کی ایسی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں جوکہ ان کی ظاہرکردہ آمدنی اور ایف بی آر میں ان کے ٹیکس ریکارڈ سے میل نہیں کھاتی، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے، جس پر ان کے خلاف رقوم کی غیر قانونی منتقلی اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔
’’امت‘‘ کی جانب سے اس ضمن می ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن اِن لینڈ ریونیو کے سربراہ عبدالرحمن بلو سے موقف لینے کیلئے کئی مرتبہ رابطہ کیا گیا، لیکن انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔

Comments (0)
Add Comment