شاہ دلگیرنقاد کے دوبارہ اجراپر تیار ہوگئے

قمر زمانی کے نو فروری کے خط کا جواب دلگیر نے خط ملتے ہی اس انداز میں دیا:
ارض تاج
12 فروری 1917ء
جان دلگیر
میں یہ القاب لکھتے ہوئے ڈرتا تھا۔ مگر اب آپ ہی نے تجویز فرما دیا تو آئندہ یہی لکھا کروں گا۔ قربان جاؤں، اس سے پیارا اور دلفریب القاب آپ کے لیے ہو نہیں سکتا۔ یہ معلوم ہوتا ہے میری روح ان دو لفظوں میں کھنچ کر آگئی ہے۔ خدا کرے آپ ہی ’’جان دلگیر‘‘ ثابت ہوں۔ وقت پر مسیحا نامہ ملا۔ جی اُٹھا ورنہ دو دن بعد کچھ نہ تھا…
زہر بھی پیس کر رکھ چھوڑا تھا کھانے کے لیے
شکریہ ادا کر کے اس احسان کو بے وقت نہیں کرنا چاہئے:
عاشق نواز دلگیر نواز میں ہوں یا تم
تمہیں پر فیصلہ ٹھہرا تمہیں کہہ دو خدا لگتی
آپ کا خط دیر سے پہنچنے کی اب کبھی شکایت نہ کروں گا۔ چاہے اس کے انتظار میں دم ہی کیوں نہ نکل جائے…
جس میں تم خوش ہو جو تمہاری خوشی
کنیز نوازی کے ذکر میں ’’اب کے انڈر لائن کرنے نے مار ڈالا۔ اُف یہ بے پناہ تیر نہ کہو اچھا نہ کہو۔ لکن بدگمانی بھی نہ کرو۔ ’’جان دلگیر‘‘ کہنے والی کوئی ہستی دنیا میں ہوتی تو میں دلگیر نہ ہوتا… ہائے…
تاریخ محبت کا فسانہ ہے یہ مصرعہ
دلگیر ہوا جب سے کہ میں دل نہیں رکھتا
صدقے اس تخاطب کے آپ مجھے اپنا دلگیر کہئے۔ ہزار بار کہئے…
اللہ راس لائے اپنا غلام کہنا
ہائے یہ کیا کہا۔ ’’مگر میرے ہوکر رہنا۔ بے وفائی نہ کرنا‘‘۔ سچ کہتا ہوں اس فقرے نے مجھے بہت صدمہ دیا۔ کیا میری محبت کا یہی انعام ہے۔
بے وفائی خمیر میں ہوتی تو آج دلگیر نہ ہوتے۔ خیر اس بے وفائی کا حال عنقریب آپ کو معلوم ہو جائے گا…
یاد آئے گی تمہیں میری وفا میرے بعد
’’ورنہ مرجاؤں گی۔ مر مٹوں گی اور جان دے دوںگی۔‘‘
ہائے یہ تینوں نشتر دل میں اتر گئے۔ خدا ہی ہے جو اب جان بچے۔ میں آپ کو معاف کروں، گناہ گار نہ بنایئے کہ بخشا نہ جاؤں، میں آپ سے اپنی خطاؤں کی بادب معافی چاہتا ہوں۔ ’’اپنی محبت کا صدقہ معاف کر دیجئے‘‘۔
آپ میرے دل سے نکلی ہوئی کو تحسین ناشناس سمجھ کر نہ قبول فرمائیے۔ لیکن حقیقیت یہ ہے کہ آپ کے زور قلم کا مقابلہ مجھ ناتواں سے دشوار ہے۔ میں اکثر دفتر کے دفتر لکھتا ہوں۔ اشعار کی بھرتی بھی اس میں ہوتی ہے۔ لیکن سب بے کار۔ لاحاصل محض۔ آپ کبھی لکھتی ہیں وہ بھی مختصر اور شعر تو بہت ہی کم۔ مگر عبارت اتنی جامع، اتنی موثر اور اتنی دل نشین ہوتی ہے کہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ بلا تصنع عرض کرتا ہوں کہ آپ کا ایک سادہ فقرہ بھی شعر ہوتا ہے، جس کی داد دینے کے لیے آپ ہی کی زبان اور آپ ہی کا سحر آفرین قلم چاہئے اور یہیں سے اپنا مرتبہ دیکھ لیجئے۔
اپنے نشتروں کے زخم سے انکار ہو تو میرا چھلنی دل دیکھئے، اُف قادر اندازی اتنی تو ہو۔ خط کے لیے اتنا نہ بنائیے کہ میں شرمندہ بھی نہ ہو سکوں۔ اس آشفتہ بیان کی آپ تعریف کرتی ہیں جسے اب تک قلم ہاتھ میں لینے کی بھی تمیز نہیں۔ ہاں آپ کے فیض قلم سے صرف اتنا سلیقہ آیا ہے کہ اوراق کے مذاق ادب کو تاڑ لیتا ہوں اور بس بہرحال مجھ ہیچمدان و گمنام خلائق کے لیے آپ کا یہ گراں بہا فقرہ ’’آپ ہی کے سر کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ یہ انداز تحریر ہی تو تھا جس نے مجھ تباہ کر دیا‘‘ (جب تک زندہ ہوں) وجہ ناز اور سبب افتخار رہے گا…
وہ اپنی خوبی قسمت پر کیوں نہ ناز کرے
تری نگاہ جسے آشنائے راز کرے
زندگی کی تصویر بذریعہ رجسٹری بھیجتا ہوں۔ غلامی میں قبول فرمایئے…
یہ صورت ہے جب کی کہ میں بھی جوان تھا۔
’’جانِ دلگیر کی قسم‘‘ اس ناز آفرین قسم پر میری جان تک نثار، لیکن اب یہ گوارا نہیں ہو سکتا کہ آپ دلگیر کے ہوتے نقاد کو دیکھیں۔ میں اب نقاد سے بہت بدگمان ہو چلا ہوں۔ بہت کھٹکنے لگا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کم بخت پر پیار آجائے اور غریب و ناچار دلگیر ناشاد و نامراد ہی رہے، مگر آپ نے قسم اس قدر سخت لگائی کہ اب مجبور ہوں، فرمایئے کس پتہ سے بھیجوں۔
یہ اس لیے پوچھتا ہوں کہ پرچے بااحتیاط آپ تک پہنچ جائیں اور ضائع نہ ہوں۔ معاف کیجئے، مجھے دہلی نہ بلوایئے۔ وہاں کی روداد سے میں بہت ڈرا ہوں۔ اس لیے دہلی نہ آئوں گا۔ میں آپ کی خاطر سے دلی اور بریلی گیا تو کیا آپ میرے لیے آگرہ نہ آئیں گی۔
آیئے جلد آگرہ آیئے، شاید وصل یہیں مقدر ہو۔
ہائے اللہ یہ کیا لکھ گیا، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی اور، اور اتنا بتا دیجئے کہ بغیر آپ کے صبر کیوں کر کروں۔ ہائے کچھ صبر کئے سے بن نہ آیا۔ یوں بھی تو بہت دنوں بسر کی۔ خدا نالوں کی داد دینے کا وقت جلد لائے۔ آمین۔
میں نے وہ خط قصداً بھیجا تھا، جس سے یہ معلوم کرنا مقصود تھا کہ آپ کو دخل غیر کہاں تک پسند ہے۔ الحمد للہ کہ جواب حسب منشا ملا۔ اس ادا شناسی پر مر مٹا، آئندہ ایسی غلطی نہ ہو گی۔
اچھا یہ تو فرمایئے، اگر آپ نقاد کی ادارت اپنے ہاتھ میں لے لیں تو میں مرحوم کو زندہ کرنے کا سامان کروں۔ دیکھئے کسی عنوان انکار نہ کیجئے گا، ورنہ…
’’دل ٹوٹ جائے گا کسی امیدوار کا‘‘۔
صرف اس تمنا کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں کہ جواب اور رسید فوراً ارسال فرمایئے۔ اور زیادہ منتظر نہ رکھئے۔
آپ کا
حسرت ضمیر
’’دل گیر‘‘
یہ 12 فروری 17ء کا خط ہے اور قمر زمانی کے خط مرقومہ 9 فروری 17ء کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ 12 فروری کے بعد دلگیر کا ایک اور خط مرقومہ 19 فروری صرف فارسی اشعار پر مشتمل اس طور پر ملتا ہے:
19 فروری 17ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اے صبا نکہتے ازخاک دریار بیار
ببرا مذ وہ دل و مژدۂ دلدار بیار
نکتۂ روح فزا از دہن یار بگوئے
نامہ خوش خبر ازعالم اسرار بیار
تا معطر کنم از لطف نسیم تو مشام
شمہ از نفحات نفس بار بیار
راقم
نام من رفتہ است روزے برلب جاناں بہ سہو
اہل دل را بوئے جان می آید از ناعم ہنوز
(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment