کھاریاں میں حضرت سلوانامؑ کی قبر کی موجودگی کے دعوے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ صدیوں سے یہاں موجود ہے۔ پہلے قبر ایک اونچے ٹیلے پر موجود تھی۔ تعمیرِ نو کے بعد بھی دیگر قبور سے یہ اونچی دکھائی دیتی ہے۔ صدیوں سے لوگ یہاں آتے حاضری دیتے اور اپنے حق میں دعا کرتے تھے۔ قبرکی پختگی اور اس پر مزار کے حوالے سے وہاں موجود غلام حسین اور متولی آصف کی بیوی کا دعویٰ تھا کہ ’’ایک مرتبہ ایک شخص جو پیشے کے لحاظ سے ترکھان تھا، اس کا دس بارہ برس کا بیٹا گم ہوگیا۔ وہ مزار پرآیا اور صاحب مزار سے بیٹے کی دستیابی کی بابت دعا کی۔ دعا کے دوران روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی، تو اسے خواب میں کہا گیا کہ مزار کی تعمیر کرائو، بیٹا مل جائے گا۔ وہ اٹھا تو اس نے خواب کو خیال تصور کیا اور پھر دعا کرنے لگا۔ اب کی بار اسے باقاعدہ آواز سنائی دی کہ مزار کی تعمیرات شروع کردو۔ اس نے پھر اغماض برتا، لیکن آواز دوبارہ آئی۔ چنانچہ اس نے قبر کو پختہ کرنے کی ٹھانی۔ سب سے پہلے قبر کا پلنگ بنایا اور بعد ازاں اس کی ضریع تعمیر کی گئی۔ اس کے اوپر چھت البتہ نہیں ڈالی گئی تھی۔ قبر پختہ کرکے، چار دیواری پھیر دی گئی تھی۔ جب مزار مکمل ہوگیا تو اس ترکھان نے صاحب مزار سے دل ہی دل میں ہی شکوہ کیا کہ بابا جی آپ نے تو مزار کا حکم دیا تھا، اس کی تعمیل ہوگئی۔ لیکن میری درخواست کی منظوری باقی ہے اور میرا بیٹا نہیں ملا۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ جیسے ہی اس کے دل میں یہ بات آئی، آندھی چلنا شروع ہوگئی۔ آندھی اس قدر تیز تھی کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ شخص مزار کے اندر دیوار کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھا۔ جب آندھی تھمی اور وہ باہر آیا تو مزار کے باہر اس کا بیٹا کھڑا تھا، جس کے دامن میں پھٹے ہوئے کپڑے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرم بھنے ہوئے چنے بھی تھے، جن سے ابھی تک بھاپ نکل رہی تھی۔ ترکھان نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پوچھا کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے۔ تو اس نے کہا کہ مجھے خود معلوم نہیں ہے۔ مجھے خرکار اغوا کرکے لے گئے تھے اور مجھے گدھوں پر مٹی ڈھونے پر لگا دیا گیا تھا۔ میں تو کچھ دیر قبل ایک گدھے کو ہانک رہا تھا۔ خدا جانے یہاں کیسے پہنچ گیا۔ دامن دکھا کر کہنے لگا کہ دیکھیں میں نے تو یہ کپڑے پہن رکھے تھے‘‘۔
آصف متولی کی بیوی کے اس دعوے پر شاہ زین نے بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بالکل ایسے ہی ہوا تھا۔ میرے پاس اس ترکھان کا کہیں نام بھی لکھ رکھا ہوگا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ترکھان نے مزار کی تعمیر کی منت مانی تھی کہ بیٹا مل جائے تو مزار تعمیر کرے گا۔ تو اسے حکم ہوا مزار کی تعمیر شروع کرا دو بچہ مل جائے گا۔ دراصل نوگزے بزرگوں کے بارے میں میری اپنی تحقیق یہی کہتی ہے کہ ان میں اکثر، اللہ کے نبی ہیں‘‘۔
شاہ زین کا مزید کہنا تھا کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ آج کل کوئی ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ جو یقین رکھتا ہے، وہ بغیر سوچے اس پر یقین کرتا ہے۔ جیسے اس عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے، جس کا نام عنایت تھا۔ وہ یہاں کے قدیم مجاور سائیں شیر علی کی بیٹی تھی۔ اس کا روحانی مزاج تھا اور اس نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔ یہ جوانی کے کچھ برس یہاں رہی، پھر یہ سیالکوٹ امام علی الحق کے مزار پر رہی اور پھر دوبارہ اس مزار پر آکر اس نے قیام کیا اور لنگر کا انتظام کیا۔ اب تھوڑی ہسٹری سائیں شیر علی کی بھی بتاتا چلوں۔ دیکھیں شیر علی نے یہاں بہت عرصہ قیام کیا اور صاحب مزار کی خوب خدمت کی۔ اب بھی انہی کے خاندان کے لوگ یہاں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ یہاں میں حوالہ دوں گا کتاب ’’گجرات تاریخ کے آئینے میں‘‘ کا، جس کے مصنف ایم زمان کی 90ء کے اوائل میں سائیں شیر علی سے ملاقات ہوئی۔ شیر علی نے اسے بتایا کہ چار پشتوں سے ہمارا خاندان مزار کی خدمت پر مامور ہے۔ مزار کی تعمیر نو پر ساڑھے تین لاکھ روپے اخراجات آئے تھے۔ مقامی لوگ صاحب مزار کو بابا اصحاب نو گزا کے نام سے پکارتے ہیں۔ زمان نے سائیں شیر علی سے سوال کیا کہ صاحب مزار کا نام کیا ہے۔ تو اس نے فوراً کہا کہ حضرت سلوانامؑ آپ کا اسم گرامی ہے۔ پھر زمان کھوکھر کہتا ہے کہ مجھے اندازہ ہوگیا کہ برصغیر میں جتنے نوگزے مزارات ہیں، ان تمام کے نام اس کے پاس محفوظ تھے۔ اب زمان کو چاہیے تھا کہ وہ سائیں شیر علی سے مزید گفتگو کرتا اور پوچھتا کہ آپ کو یہ نام کیسے معلوم ہوا، لیکن اس نے مزید سوالات نہیں کئے۔ البتہ یہ ضرور لکھا کہ اس مزار پر قوالی نہیں ہونے دی جاتی۔
اسی حوالے سے ایک واقعہ شہرت رکھتا ہے کہ جب مزار کی تعمیرات مکمل ہوگئیں تو اسی خوشی میں ایک رات قوالی کا پروگرام رکھا گیا۔ گائوں بھر میں خوب اہتمام ہوا، دور دور سے قوال بلوائے گئے۔ جب رات گئے محفل عروج پر تھی تو اچانک ایک سفید نورانی شعلہ بلند ہوا، جس کے بعد چھپڑ کے مینڈک، کچھوے اور چھپکلیاں حاضرین پر آ گرنے لگیں۔ ایسا ہیبت ناک سماں بندھا کہ تمام لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ جس کا جدھر منہ آیا اس جانب بھاگ اٹھا۔ اس واقعے کے بعد کسی کو اس مزار پر قوالی کرانے کی ہمت نہیں ہوئی، البتہ نعت کی محافل ضرور ہوتی ہیں۔ سائیں شیر علی کہتا تھا کہ صرف اس مزار پر ہی نہیں، بلکہ تمام نوگزی قبور پر قوالی کی اجازت نہیں ہے۔
(جاری ہے)