معارف القرآن

معارف و مسائل
بعض روایات میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر حقیقی معنی میں آسمان سے ترازو نازل کی گئی تھی اور حکم دیا گیا تھا کہ اس کا وزن کر کے حقوق پورے کرنا چاہئیں۔
کتاب اور میزان کے بعد ایک تیسری چیز کے نازل کرنے کا ذکر ہے، یعنی حدید (لوہا) اس کے نازل کرنے کا مطلب بھی اس کو پیدا کرنا ہے، جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں چوپایہ جانوروں کے متعلق بھی لفظ انزال استعمال فرمایا ہے، حالانکہ وہ کہیں آسمان سے نازل نہیں ہوتے، زمین پر پیدا ہوتے ہیں، اُس آیت میں باتفاق انزلنا سے مراد خلقنا ہے۔ یعنی تخلیق کو انزال کے لفظ سے تعبیر کر دیا کہ جس میں اشارہ اس طرف پایا جاتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب اس اعتبار سے منزل من السماء ہے کہ اس کے پیدا ہونے سے بھی بہت پہلے وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا تھا۔ (روح)
حدید یعنی لوہے کو نازل کرنے کی دو حکمتیں آیت میں بیان فرمائی ہیں۔ اول یہ کہ مخالفین پر اس کا رعب پڑتا ہے اور سرکشوں کو اس کے ذریعہ احکام الٰہیہ اور عدل و انصاف کے احکام کا پابند بنایا جا سکتا ہے، دوسرے یہ کہ اس میں لوگوں کے لئے بہت منافع حق تعالیٰ نے رکھے ہیں کہ جس قدر صنعتیں اور ایجادات و مصنوعات دنیا میں ہوئی یا آئندہ ہو رہی ہیں، ان سب میں لوہے کی ضرورت ہے، لوہے کے بغیر کوئی صنعت نہیں چل سکتی۔
فائدہ:یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس آیت میں اصل مقصد پیغمبروں اور کتابوں کے بھیجنے اور میزان عدل ایجاد کرنے اور اس کے استعمال کرنے کا یہ بیان کیا ہے کہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ اس کے بعد ایک تیسری چیز یعنی لوہے کے نازل کرنے یعنی ایجاد کرنے کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اسی عدل و انصاف کی تکمیل کیلئے جو پیغمبر اور کتاب کے نازل کرنے سے مقصود ہے۔ کیونکہ انبیائے کرام علیہم السلام اور آسمانی کتابیں عدل و انصاف قائم کرنے کے واضح دلائل دیتے ہیں اور نہ کرنے کی صورت میں عذاب آخرت سے ڈراتے ہیں، میزان ان حدود کو بتلاتی ہے جن سے انصاف کیا جاتا ہے مگر سرکش معاند جو نہ کسی دلیل سے مانتا ہے نہ ترازو کی تقسیم کے مطابق عمل کرنے کو تیار ہے، اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ دنیا میں عدل و انصاف قائم نہ ہونے دے گا، اس کو پابند کرنا لوہے اور تلوار کا کام ہے جو حکومت و سیاست کرنے والے آخر میں بدرجہ مجبوری استعمال کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment