عباس ثاقب
ظہیر نے انہیں بتایا کہ ہم ایک ولایتی ریوالور اور بھاری تعدا د میں ایمونیشن بھی خرید کر لائے ہیں۔ ظہیر نے اپنے قبضے میں موجود ریوالور دکھایا تو ناصر کی رال ٹپکنے لگی۔ لیکن ظہیر نے اسے صرف گن کے لمس سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی۔ ان دونوں نے مل کر ریوالور کے علاوہ تمام اسلحہ ایک بار پھر نفاست سے بوری میں پیک کر دیا۔
میں اپنے بدلے ہوئے روپ سے جان چھڑاکر فارغ ہی ہوا تھا کہ رخسانہ نے بتایا کہ کھانا تیار ہے۔ یہ سنتے ہی ظہیر سب کچھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’اس سے زیادہ انتظار مجھ سے تو نہیں ہوتا۔ خدا کے لیے جلدی سے کھانا لگادیں، ورنہ…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’یار ایسی بھی کیا بے صبری، کم ازکم ہاتھ تو دھولو۔ آدھے پنجاب کی خاک دھول پھانک کر آئے ہیں‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’دسترخوان کی طرف جاتے ہوئے رُک کر دھولوں گا۔ یقین کریں اگر اسلحہ ساتھ نہ ہوتا تو میں جالندھر میں ہی گاڑی روک کر کھانا منگوا لیتا‘‘۔
اس کی حالت دیکھ کر سب ہنس رہے تھے، لیکن وہ قطعاً شرمندہ دکھائی نہ دیا۔ رخسانہ نے بتایا کہ وہ مددگار خاتون کو سالن گرم کرنے اور روٹیاں ڈالنے کا کہہ کر آئی تھی۔ کھانا دسترخوان پر ہمارا منتظر ہوگا۔ اس نے درست کہا تھا۔ دو ہی منٹ بعد ہم سب مل کر کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے کشمیر کا مقبول کھانا روغن جوش تیار کیا تھا، جو بھوک کے عالم میں گرما گرم روٹیوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی مزے کا لگا۔ خصوصاً ظہیر تو کچھ زیادہ ہی رغبت سے ہاتھ چلارہا تھا۔
کھانے کے بعد چائے پیتے ہوئے یاسر نے فکر مند لہجے میں پوچھا۔ ’’آپ لوگوں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ راستے میں پولیس والوں سے ٹاکرے سے پریشانی تو نہیں ہوئی؟ لدھیانے سے یہاں تک مجھے تو جگہ جگہ عارضی پولیس چوکیاں اور ناکے دکھائی دیئے ہیں اور میں مسلسل آپ لوگوں کی سلامتی کے لیے دعاگو رہا ہوں‘‘۔
یاسر کی اس انتہائی سنجیدہ بات پر ظہیر نے بے ساختہ، بلند آہنگ قہقہہ لگایا تو وہ چاروں حیرانی سے اس کی شکل دیکھنے لگے۔ بلکہ یاسر نے تو اپنی چائے کی پیالی تپائی پر رکھ دی تھی۔ اس نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’خیریت تو ہے ظہیر بھیا؟ یہ اچانک آپ کو کیا ہوا؟‘‘۔
ظہیر نے خود کو سنبھالتے ہوئے بدستور شگفتہ لہجے میں کہا۔ ’’کیا بتاؤں یاسر بھائی، کیا کمال اداکاری کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اپنے جمال بھیا۔ یہاں سے کپورتھلے تک جگہ جگہ، بار بار پولیس چوکیوں اور ناکوں پر ہماری گاڑی روکی گئی ہے۔ لیکن ہر مرتبہ پولیس والوں کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے مٹھو سنگھ کی خوشنودی کے لیے شرفا کی راہ کھوٹی کرنے پر ہمارے کنور جی نے غریب سنتریوں اور حوالداروں سے اتنی بری طرح ڈانٹ ڈپٹ کی ہے کہ چھان پھٹک کرنے کے بجائے ان سب کو اپنی پڑ گئی اور انہوں نے مزید کچھ پوچھے بغیر آگے بڑھ جانے کی اجازت دے دی‘‘۔
اس کی بات سن کر وہ چاروں قہقہے لگانے لگے۔ جمیلہ نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’ویسے ان بے چاروں کا بھی قصور نہیں۔ اتنی مہنگی اور عالی شان گاڑی، اور اس سے بھی زیادہ عالی شان مونچھوں والے دبنگ شخص کو دیکھ کر تو وہ پہلے سے ہی سہم جاتے ہوں گے۔ کمال شکل بدلی تھی جمال بھائی آپ نے‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے شکل میں تو بہت معمولی تبدیلیاں کی تھیں۔ انہیں مرعوب کرنے میں گاڑی اور میرا لباس، جیبی گھڑی اور چھڑی وغیرہ نے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے ناکوں پر تو کسی نے کچھ پوچھنے کی جرأت ہی نہیں کی‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’کنور جی نے پولیس والوں سے زیادہ شکتی ببر کو مرعوب کیا تھا۔ یوں سمجھیں کہ ان کی بارعب اور گمبھیر شخصیت کے سامنے بے چارہ شکتی، اپنی ساری شکتی کھو بیٹھا تھا۔ اوپر سے کنور جی نے اپنی دولت اور اثرورسوخ کی ایسی دھاک بٹھائی کہ وہ بے چارہ چاہنے کے باوجود کوئی قابلِ ذکر مزاحمت کیے بغیر ان کی ہر فرمائش مانتا چلا گیا‘‘۔
میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے اضافہ کیا۔ ’’کنور جی کی شخصیت کا رعب و دبدبہ اپنی جگہ، لیکن مال کی منہ مانگی قیمت دینے کی یقین دہانی نے اسے جلد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ رہی سہی کسر اس پوشیدہ دھمکی نے نکال دی کہ سرکار دربار میں بھاری اثرورسوخ رکھنے والے کنور جی کی دل شکنی کا نتیجہ خراب نکل سکتا ہے۔ ظہیر نے تو مجھے مہاراجا پٹیالہ یدوندر سنگھ جی کا سسرالی رشتے دار بنا ڈالا تھا‘‘۔ ناصر نے کہا۔ ’’اب میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ آپ دونوں نے اتنے بڑے بڑے کارنامے کیسے سر انجام دیئے ہوں گے۔ یہ سب ماہرانہ حربے تو ایک طرف، اتنے خطرناک حالات میں اتنا لمبا فاصلہ طے کرنے کا تصور ہی میرے جیسے بندے کا خون خشک کرنے کے لیے کافی ہے‘‘۔
اس کی بات سن کر جمیلہ نے شوخ لہجے میں کہا۔ ’’ہمت اور جرأت تو خیر قدرت کی طرف سے ہوتی ہے، بندہ کم از کم مشکل حالات سے نمٹنے کے طریقے تو سیکھ ہی سکتا ہے۔ لیکن آپ کا بھی قصور نہیں۔ آڑھت کے لیے کون سا ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟‘‘۔
جمیلہ کی بات سن کر ناصر بری طرح جھینپ گیا۔ میں نے اس شرارتی لڑکی کے چبھتے ہوئے جملے پر اس کی شرمندگی کی شدت کم کرنے کے لیے موضوع بدلا۔ ’’ناصر، اب ظہیر سے مشورہ کر کے یہ ہتھیار جلد از جلد کشتواڑ پہنچانے کا بندوبست کرو۔ ان کی یہاں موجودگی ٹائم بم کی طرح ہے‘‘۔
ظہیر بھی سوالیہ نظروں سے ناصر کی طرف متوجہ ہوا۔ شرمندگی سے نکالنے والی میری اس مداخلت پر ناصر نے یقیناً سکون کا سانس لیا ہوگا۔ اس نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔ ’’آپ فکر نہ کریں جمال بھائی، اس ٹرک میں بنوایا ہوا خفیہ خانہ اب بھی موجود ہے۔ یہ سب مال اس میں آجائے گا۔ اپنا پروگرام طے کرلیں۔ آپ لوگ جب کہیں، اس ٹرک کو خشک میووں کی رسد لینے کشتواڑ روانہ کر دیا جائے گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭