ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر کا فارسی اشعار پر مشتمل خط قمر زمانی کو موصول ہوا یا نہیں، اس کا سراغ نہیں ملتا۔ اس خط کا مضمون بھی جواب طلب نہیں تھا۔ اس لیے ممکن ہے قمر زمانی نے اس خط کا ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا ہو۔ لیکن دلگیر کے 12 فروری والے خط کے جواب میں قمر زمانی نے اتنا ہی مفصل خط لکھا، جتنا مفصل دلگیر کا خط تھا۔ قمر زمانی کا خط دیکھئے:
بریلی 19 فروری 1917ءجان آرزو یا آرزوئے جان، اچھا دونوں سہی۔ اس وارفتگی کا برا ہو خدا جانے میں نے بے خودی میں آپ سے کیا خطاب کیا، جی چاہتا تھا کہ آپ کو ’’جانِ قمر‘‘ لکھتی، لیکن ڈرتی ہوں آپ آشفتہ حال کی جان بن کر کیا کریں گے، آہ! وہ جان جو ہر وقت مبتلائے رنج و ملال ہے…
تو ہماری زندگی، پر زندگی کی کیا امید
تو ہماری جان، لیکن کیا بھروسہ جان کا
آپ تحریر فرماتے ہیں کہ جان دلگیر کہنے والی کوئی ہستی دنیا میں ہوتی تو میں دلگیر نہ ہوتا۔ آپ کو میری قسم، سچ کہئے کوئی اور ہستی بھی ایسی تھی جس کی طرف سے آپ یہ آرزو رکھتے ہیں۔ دیکھئے، میں آپ کی طرف سے بدگمان ہو چلی ہوں۔ اس کا جواب صاف دیجئے، ورنہ میں بگڑ جائوں گی، واللہ نہ مانوں گی۔ جبھی تو میں نے لکھا تھا کہ میرے ہوکر رہنا۔ بیوفائی نہ کرنا۔ تحسین ناشناس نہیں تحسین قدر شناس سمجھ کر شکریہ ادا کرتی ہوں۔ مگر آپ کی تحسین اور میرے لیے شاید ہی کچھ معنی رکھتی ہو۔ اپنوں کے عیب بھی نہیں نظر آتے۔ ابھی تو نہیں لیکن امید کرتی ہوں کہ شاید آئندہ کمال تحسین مجھ میں یہ خوبی پیدا کر دے۔ تصویر دلگیر ملی۔ یہ نہ پوچھئے کہ اس نذر دلگیر سے خود دلگیر ہے میرے دل کی کیا حالت ہوئی۔ یہ آپ نے کیا لکھا کہ یہ تصویر اس وقت کی ہے جبکہ میں جوان تھا۔ کیا اب آپ جوان نہیں۔ جوانی نام ہے صرف دل میں سما جانے کا۔ آنکھوں کی راہ سے کلیجے میں اتر جانے کا، سو یہ میرے دل اور کلیجہ سے پوچھئے، دیکھئے، نقاد جلد روانہ فرمایئے۔ ورنہ میں لڑوں گی۔ پتہ وہی ہے مجھے یقیناً مل جائے گا۔
بہت اچھا دلی نہ آیئے، لیکن آگرہ کیوں کر آسکتی ہوں۔ خیر سے آپ جوش انشا پردازی میں ہرزہ سرائی پر بھی اتر آئے ہیں۔ شاید، یہی مقدر ہو۔ چلو بھئی یہ باتیں اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ نقاد کی دوبارہ زندگی میری محبت کی یادگار ہے۔ اس لیے اس یادگار کا واسطہ دلاتی ہوں کہ اسے ضرور جاری فرمایئے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں پرچے میرے ہاتھوں میں ہونے چاہئیں اور یہی امتحان محبت ہے۔ ایڈٹ کرنے میں آپ کے ساتھ ہوں۔ مجھے کچھ آئے یہ نہ آئے، لیکن آپ پر اعتماد ہے، سنبھال لیجئے گا۔ آپ اگر مناسب سمجھیں تو اپنے نام کے ساتھ میرے نام کا بھی اعلان کر دیجئے۔ لیکن پتہ ظاہر نہ کیجئے گا۔ نقاد کا پرچہ اس کے جواب کے ساتھ ساتھ آنا چاہئے۔
کنیز(ق۔ز)قمر زمانی کا یہ خط کیا تھا، دلگیر کی بہت سی آرزوئوں کا مرقع تھا۔ اس خط نے دلگیر کو یقین دلادیا کہ ان کی طرف سے قمر زمانی کی بدگمانی یا بے نیازی یا بے رخی محض ان کو کڑھانے اور محبت کی آزمائش کے لیے تھی، ورنہ دلگیر سے جس والہانہ محبت کا اظہار قمر زمانی نے پہلے دن کیا تھا، وہ اسی طرح باقی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ دلگیر کو ’’جان قمر‘‘ لکھنے کی آرزو کیوں رکھتیں اور ان کی خوشنودی کے لیے ’’نقاد‘‘ کے دوبارہ اجرا کے سلسلے میں اپنے نام کے اعلان کی اجازت کیوں دیتیں۔ نتیجتاً قمر زمانی کے اس خط نے دلگیر کی بجھی بجھی سی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ان میں کام کرنے کی نئی تڑپ اور نقاد کو پھر جاری کرنے کی نئی لگن پیدا ہو گئی۔ گویا دل کی دھڑکنوں کے ہاتھوں ذہن سے بھی کام لینے پر مجبور ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے بلاتاخیر قمر زمانی کو بطور شکر و سپاس لکھ بھیجا:
ارض تاج۔ 23 فروری 17ءجان آرزو لکھوں یا آرزوئے جان۔
آپ نے یہ لکھ کر خطاب کا خاتمہ کر دیا۔ اب میں کیا لکھوں۔ اچھا بے خطاب سہی، خدا آپ کی وارفتگی کو قائم رکھے، جس سے میری دل گرفتگی و دلگیری وابستہ ہے۔ دیکھئے ’’جان قمر‘‘ لکھنے کی عزت کب حاصل ہوتی ہے۔
آشفتہ حال کی ’’جان‘‘ دلگیر سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے۔ آپ ہی فرمایئے، اگر میں جان قمر بن سکوں تو اپنی جان تک دے دینے کے لیے تیار ہوں۔
آپ بھی لینے کے لیے راضی ہیں۔
ہائے یہ شعر…
تو ہماری زندگی، پر زندگی کی کیا امید
تو ہماری جان، لیکن کیا بھروسہ جان کا
آپ نے اس وقت لکھا جب میں 19 فروری کو خط لکھنے کے بعد سے اس شعر کی پیہم تکرار کر رہا تھا اور آپ کو لکھنے والا تھا…
دل گیر جگر سوختہ کی جلد خبر لو
کیا ورنہ بھروسہ ہے چراغ سحری لو
اس یکسانی خیال پر مر مٹا۔ واللہ جذب محبت اتنا تو ہو۔ میں نے وہ فقرہ اور شعر (تاریخ محبت…) لکھ کر اپنا راز محبت آشکارا کر دیا تھا اور کوئی بات پہلے بھی آپ سے نہیں چھپائی تھی۔ اب صاف صاف لکھتا ہوں کہ ہاں ایک سراپا تمنا ہستی تھی جو اب دنیا میں نہیں ہے۔ میں اس ہستی مینونشین سے ضرور آرزو رکھتا ہوں، مگر اب وہ آرزو مردہ ہے اور میں زندہ ہوں، ہائے…
ہم ایسے بدنصیب کہ اب تک نہ مر گئے
آنکھوں کے آگے آگ لگی آشیانے میں
اس خانہ آشیاں کی یاد دل میں پھانس کی طرح برابر کھٹکتی رہی اور یہ شعر اس واقعہ کی یادگار ہے…
دل سے جاتی ہے کہیں ناوک صیاد کی یاد
کیا مزہ ہے کہ خلش کی ہے خلش یاد کی یاد
بس اس وقت سے دلگیر ہوں لیکن خدا بھلا کرے آپ کی دلنوازی کا۔ اس دنیا میں یہ دوسرا وجود ہے جو میرے دل و دماغ پر قبضہ کرتا معلوم ہوتا ہے۔ نہیں مجھے صاف کہنا چاہئے کہ اس نے پوری طرح قبضہ کر لیا اور دل و جان کا مالک بن گیا۔ آپ نہ یہ دل دہی و دل جوئی کرتیں، نہ یہ بدنصیب دل آپ کے ہاتھوں بکتا۔ مجھے شکوہ ہے کہ کم بخت دلگیر کو جس کا پوچھنے والا کوئی نہ تھا آپ نے کیوں پوچھا، کیوں یاد کیا اور کیوں نوازا…
مجھ پہ احسان جو نہ کرتیں تو یہ احسان ہوتا
لیجئے میں نے اقرار گناہ کر لیا، جرم محبت کا اقبالی ہوں۔ اب چاہے سزا دو یا بخش دو…
لو کھڑے ہیں ہاتھ باندھے ہم تمہارے سامنے
کہئے اب بھی اطمینان ہوا یا بدگمان ہو
دل چیر کر دکھا دوںکہ اب اس ویرانے میں کون آباد ہے۔ ہائے تمہیں یقین نہ آئے گا (کیونکہ بدگمان ہونا بھی شان معشوق ہے) ورنہ صاف کہہ دیتا…
کہ کسے نیست بجز درد تو در خانۂ ما
واقعی میری تحسین بے معنی ہے۔ مجھے اس کا بہ عجز اعتراف ہے۔ ’’جمال ہم نشین، کے مقابلے میں‘‘ کمال ہم نشین‘‘ کی دلآویز ترکیب نے مجروح کر دیا۔ خدا سلامت رکھے اور نمک چھڑک گئے۔
تصویر پر آپ نے اپنے ہاتھ سے کیا لکھا۔ مجھے بھی لکھ دیجئے کہ یاد رکھوں ’’جوانی نام ہے صرف دل میں سما جانے کا۔ آنکھوں کی راہ سے کلیجے میں اتر آنے کا‘‘۔ آہ یہ فقرہ تیر کی طرح کلیجے میں اتر گیا اور جس نے خراج تحسین کے عوض خراج اشک وصول کیا۔
پناہ۔ پناہ… موت۔ موت…
’’ورنہ میں لڑوں گی‘‘۔ اف کس لطف کا فقرہ آپ نے لکھا ہے، جی خوش ہو گیا، حسن طلب ایسا تو ہو۔ کاش میں آپ کی لڑائی دیکھنے کا فخر حاصل کر سکتا، لیکن افسوس ایسی قسمت کہاں۔
اگر میں ہرزہ سرائی (ایک مرتبہ اور اپنے پیار سے منہ سے یہی الفاظ کہہ دوں جن کو سن کر بے اختیار منہ… کو جی چاہتا ہے) نہ کرتا تو یہ مزے کا فقرہ کیسے سننے میں آتا۔
’’چلو ہٹو ہمیں یہ باتیں اچھی نہیں معلوم ہوتیں‘‘۔
ہائے ظالم مار ڈالا۔ کس ادا سے کہا ہے۔ تصویر آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ عالم خیال میں حد شرع بھی جاری نہیں ہوتی۔ چونکہ وہ ایک خیالی اور فرضی تھی، اس لیے اپنی گستاخی و بے ادبی کی معافی نہیں چاہتا…
گر من آلودۂ دامن چہ عجب
ہمہ عالم گواہ عصمت اوست
مطمئن رہئے، آپ کی محبت کی یادگار ’’نقاد‘‘ اپریل کے پہلے ہفتے میں آپ کے دست مبارک میں ہو گا۔ میں ہر قربانی کے لیے تیار ہوں، لیکن ’’امتحان محبت‘‘ میں اترا تو انعام کیا ملے گا۔ ابھی سے فیصلہ فرما دیجئے۔
خوش ہوں کہ آپ نے اس کی ادارت منظور فرمالی۔ اب پہلے پرچے کے لیے ’’افتتاحیہ‘‘ بواپسی مرحمت فرمایئے کہ آپ ہی کے نام مبارک سے بسم اللہ کی جائے…
ہائے اس نامہ کی خوش عنوانیاںابتدا ہو جس کی تیرے نام سے’’لوح پر آپ کا نام کس طرح اور کس عنوان سے ظاہر کروں۔ صاف صاف لکھئے اور جلد‘‘۔
میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اب ’’نقاد‘‘ صرف آپ ہی کے نام سے موسوم رہے کہ اس میں چار چاند لگ جائیں، لیکن کیا پورا نام ظاہر کر دیا جائے۔ ہائے یہ مجھ سے نہ ہوگا۔
نقاد کے پرچے جواب سے پہلے پہنچیں گے، جو کل 22 فروری کو آپ کا خط ملتے ہی بذریعہ رجسٹری ارسال خدمت کر دیئے گئے۔ یہ تعداد میں 23 ہیں۔ صرف چار پرچے کم ہیں جو تلاش کرنے سے بھی نہیں ملے۔ تلاش ہنوز جاری ہے۔ مل جانے پر وہ بھی بھیج دیئے جائیں گے۔
اس خط کا جواب اور رسید فوراً دیجئے، تمہیں اپنی محبت کی قسم۔
غلام قمر زمانی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭