حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہم فرماتے ہیں: ’’حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ آخرت کی زندگی خیر ہے، خیر کے معنی کامل ہے۔ اس کی لذت بھی کامل، اس کی رحمت بھی کامل، اس کے اندر خوشی بھی کامل اور پائیدار بھی ہے۔ یعنی ختم ہونے والی نہیں، جو نعمت مل گئی وہ ہمیشہ کے لیے ملے گی۔ یہاں دنیا میں آپ کو ایک کھانا اچھا لگ رہا ہے، دل چاہ رہا ہے کھائیں، ایک پلیٹ کھائی، دو پلیٹ کھائی، ایک روٹی کھائی، آخر ایک حد ایسی آگئی کہ پیٹ بھر گیا۔ اب اگر کھانا بھی چاہیں تو کھا نہیں سکتے، اسی کھانے سے نفرت ہوگئی، وہی کھانا جس کی طرف دل لپک رہا تھا، جس کی طرف آدمی شوق سے بڑھ رہا تھا، چند لمحوں کے اندر اس سے نفرت ہوگئی، اب کھانے کو دل بھی نہیں چاہتا، کوئی انعام بھی دینا چاہے ہزار روپیہ بھی دینا چاہے کہ کھالو، نہیں کھائے گا، کیوں؟ اس پیٹ کی ایک حد تھی، وہ حد آگئی، اس کے بعد اس میں گنجائش نہیں اور نہیں کھاتا۔ لیکن آخرت میں جو کھانا آئے گا یا جو بھی غذا ہوگی، اس میں یہ مرحلہ نہیں آئے گا کہ صاحب! اب پیٹ بھر گیا، دل تو چاہ رہا ہے، کھایا نہیں جاتا، یہ مرحلہ جنت میں نہیں۔ جو لذت ہے وہ کامل ہے، اس میں کوئی تکدر (کمی) نہیں تو باری تعالی فرماتے ہیں: کہ ’’آخرت بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی ہے۔ دنیا بہتر بھی نہیں اور پائیدار بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود تمہارا یہ حال ہے کہ دنیوی زندگی ہی کو ترجیح دیتے ہو، شب و روز اس کی کوشش میں مگن ہو اور آخرت کا خیال نہیں کرتے۔ (الاعلیٰ: 16، 17)
اس آیت کے ترجمے میں اب ہم ذرا غور کریں تو یہ نظر آئے گا کہ حق تعالیٰ نے اس میں ہمارے سارے امراض ساری بیماریوں کی جڑ اور اس کا علاج بھی بتا دیا۔‘‘ (اصلاحی خطبات: 263/9)
لہٰذا ہمیں اپنے امراض ظاہرہ و باطنہ کی پہلے فکر کرنی چاہئے اور دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔