نمائندہ امت
کمرشل مارکیٹ راولپنڈی کے ممتاز تاجر طارق غنی کا ہنستا بستا گھر، جہاں شادی کے شادیانے بج رہے تھے، چند منٹوں میں ماتم کدہ بن گیا۔ ذرائع کے مطابق کچن میں گیس کا پریشر بڑھانے کیلئے لگایا گیا کمپریسر پھٹنے سے اچانک آگ بھڑک اٹھی، جس سے طارق غنی کی بیٹی، جس کی دو روز بعد شادی تھی، اس سمیت پانچ جواں سال لڑکیاں دھویں میں سانس گھٹنے سے جاں بحق ہوگئیں، جن میں دو سگی بہنیں تھیں اور شادی میں شرکت کیلئے والدین کے ہمراہ گجرات سے آئی تھیں۔ طارق غنی کے رشتہ داروں اور محلے والوں کے مطابق گھر میں گزشتہ تین چار دن سے شادی کی تقریبات جاری تھیں اور دیگر شہروں سے ان کے قریبی عزیز بھی ثنا طارق کی شادی میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں گجرات سے آئی ہوئی ثنا کی دو کزنز بھی شامل ہیں۔ قریبی عزیزوں کے بقول پیر اور منگل کی درمیانی شب شادی کی تقریبات جاری رہیں۔ دور اور قریب سے آئی ہوئی رشتہ دار خواتین مہندی اور دیگر رسومات میں بدھ کی علی الصباح چار پانچ بجے تک مصروف رہیں، جس کے بعد راولپنڈی میں مقیم رشتہ دار خواتین اور لڑکیاں اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ جبکہ دوسرے شہروں سے آئے رشتہ دار طارق غنی کے گھر میں سوگئے۔ منگل کی دوپہر بارہ بجے کے بعد جب گھر میں دن کا آغاز ہوا اور تقریباً ساڑھے بارہ بجے کچن میں ناشتہ بنانے کیلئے ماچس جلائی گئی تو فوراً آگ بھڑک اٹھی، جس نے قیمتی لکڑی کے کام سے آراستہ پورے گھر کو آناً فاناً لپیٹ میں لے لیا۔ مقامی افراد اور متاثرہ فیملی کے عزیزوں کے مطابق راولپنڈی میں ان دنوں شدید سردی کی وجہ سے گیس کی شدید قلت ہے اور گھروں میں بہت کم پریشر سے گیس آتی ہے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کے اس متمول علاقے کے بیشتر رہائشیوں نے گیس کی کمی کو دور کرنے کیلئے کمپریسر لگا رکھے ہیں، جو دیگر گھروں میں جانے والی گیس بھی کھینچ کر اس گھر کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق طارق غنی کے گھر میں بھی کمپریسر لگا ہوا تھا، جو دھماکے سے پھٹ گیا اور آگ نے پہلے کچن اور پھر پورے گھر کو لپیٹ میں لے لیا۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت، گیس کمپنی اور دیگر متعلقہ ادارے اشتہارات کے ذریعے عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ گیس کا پریشر بڑھانے کیلئے کمپریسر کا غیر قانونی استعمال انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جڑواں شہروں میں کمپریسر کا استعمال عام ہے۔
دلہن ثنا طارق کی شادی ارسلان ارشد سے ہونا تھی، جو پی ڈبلیو ڈی اسلام آباد کا رہائشی اور طارق غنی کے ماموں کا بیٹا ہے۔ گزشتہ روز مہندی تھی اور آج سترہ جنوری کو بارات آنا تھی اور ثنا نے پیا دیس چلے جانا تھا۔ لیکن قمست کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 24 سالہ ثنا طارق کے ساتھ اس کی کزنز 20 سالہ حنا، 22 سالہ نینا، 14 سال حنا اور 25 سالہ مناہل بھی آگ سے جھلس کر اور دھویں میں دم گھٹنے کے سبب جاں بحق ہوئیں۔ یہ تمام لڑکیاں رات بھر جاگنے کی وجہ سے بے سدھ سو رہی تھیں۔ اس لئے آگے لگنے کے فوری بعد کمرے سے باہر نہ آسکیں۔ جبکہ گھر میں موجود دیگر پندرہ سے بیس افراد نے اوپر کی منزل سے چھلانگیں لگا کر اور کھڑکیوں سے کود کر جان بچائی۔
چوہدری طارق غنی کے بھائی ناصر چوہدری نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ریسکیو 1122 کے عملے کی غفلت اور سستی کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ریسکیو اسکواڈ بروقت پہنچ کر آگ بجھانے کا کام شروع کر دیتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ جبکہ ریسکیو 1122 کے آفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’دوپہر 12 بجکر 38 منٹ پر ہمیں کال موصول ہوئی اور سڑکوں پر شدید رش کے اوقات کے باوجود صرف آٹھ منٹ میں ہماری پندرہ گاڑیوں کا عملہ موقع پر پہنچ گیا تھا۔ اس موقع پر ریسکیو عملے سے بدتمیزی کی گئی اور اس کے کام میں رکاوٹ ڈالی گئی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ آگ کے شعلے کھڑکیوں اور دروازوں سے باہر نکل رہے تھے، اس کے باوجود جانفشانی سے کام کرتے ہوئے ریسکو عملے نے آگ پر قابو پایا۔
جس گھر میں ہولناک سانحہ ہوا، اس کے مالک چوہدری طارق غنی راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ کے ممتاز تاجر ہیں اور ان کا ٹیٹو گفٹس کے نام سے بہت اچھا کاروبار ہے۔ آل پاکستان تاجر ایسوسی ایشن کے صدر شاہد غفور پراچہ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس المناک سانحے نے راولپنڈی اور پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے۔ طارق غنی شریف النفس اور نیک نام تاجر ہیں، ان کا ہنستا بستا گھر اچانک ماتم کدہ بن گیا، جس پر عوام خصوصاً تاجر برادری کو بہت دکھ ہے۔ حکومت اس طرح کے المناک سانحات کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کرے۔ اے بلاک، جہاں یہ سانحہ رونما ہوا، وہاں کا ہر گھر دکھی ہے۔ سوائے افسوس اور دکھ کا اظہار کرنے کے لوگوں کی زبان پر کوئی الفاظ نہیں، سب لوگ اسے اتفاقی حادثہ قرار دے رہے ہیں۔ اہل محلہ کے خیال میں یہ حادثہ گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کمپریسر کے غلط استعمال کی وجہ سے پیش آیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں کمپریسر کا استعمال عام ہے، جو انتہائی غلط ہے اور اس کا نتیجہ سامنے آچکا ہے۔ تاہم اس کے باوجود اب بھی کمپریسر کا غیر قانونی استعمال جاری ہے۔ ان ذرائع کے مطابق ثنا طارق کی شادی اپنے عزیزوں میں طے تھی اور تمام تقریبات دونوں خاندانوں میں مکمل ہم آہنگی اور اتفاق رائے سے ہورہی تھیں، تاہم ایک اتفاقی حادثے نے گھر میں صف ماتم بچھا دی ہے۔
اس کیس کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر لیاقت علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ اتفاقی حادثہ ہے۔ لیکن ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ گیس لیکیج سے آگ لگی یا کمپریسر پھٹنے سے آگ نے گھر کو لپیٹ میں لیا۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ گھر میں لکڑی کا کام بہت تھا، اس لئے جب لکڑی نے آگ پکڑی تو اسے فوری طور سے بجھانا بھی شاید مشکل ہوگیا، جس کی وجہ سے سامان سمیت پورا گھر جل گیا۔