عدالتی حکم کے باوجود مشرف کے اکائونٹس سیز نہیں کئے گئے تھے

امت رپورٹ
سابق آمر پرویز مشرف کے اکائونٹس عدالتی حکم کے باوجود سیز نہیں کئے گئے تھے۔ یہی سبب ہے کہ مشرف ان اکائونٹس سے رقوم نکلوانے میں کامیاب رہے۔ اس سلسلے میں سابق صدر کو بینکوں کے افسران کی معاونت حاصل رہی۔ ان افسران میں سے بیشتر اب بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ بینکوں کی انتظامیہ نے اس حوالے سے ایف آئی اے کو بھی لا علم رکھا، حالانکہ عدالتی احکامات بینکوں کو پہنچا دیئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں گزشتہ روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس وقت برہمی کا اظہار کیا، جب اسے بتایا گیا کہ عدالتی حکم کے باوجود سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دو بینکوں عسکری بینک اور ایچ بی ایل اسلام آباد کی برانچوں کے اکاوئنٹس سے بھاری رقم نکلوائی جا چکی ہیں۔ خیال رہے کہ عدالت نے طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے اکاوئنٹس منجمد اور جائیداد قرق کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ عدالت نے کیس کی سماعت کے موقع پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کرنے والے راولپنڈی ایف آئی اے سے پندرہ فروری تک رپورٹ طلب کرلی ہے۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکری بینک اور ایچ بی ایل کو مشرف کے اکائونٹس سیز کرنے کے عدالتی احکامات باقاعدہ پہنچائے گئے تھے اور عدالتی احکامات پر بینکوں کے عملے کے دستخط بھی موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دونوں بینکوں کے اعلیٰ افسران نے عدالتی حکم کو پس پشت ڈال کر اکائونٹس منجمد نہیں کئے اور رقوم نکلوانے اور ٹرانسفر کرنے میں سابق صدر مشرف کو سہولیات مہیا کیں۔ ذرائع کے بقول ایف آئی اے کو مشرف کے اکاوئنٹس سے رقوم کی منتقلی کی کچھ معلومات ملی ہیں۔ جن کے مطابق دونوں بینکوں میں سے چیکوں کے ذریعے رقوم نہیں نکلوائی گئیں، بلکہ وقفے وقفے سے کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے ملک اور ملک سے باہر سے رقوم نکلوائی گئیں۔ یہی نہیں، بلکہ رقوم دوسرے اکاوئنٹس میں ٹرانسفارمر بھی ہوئی ہیں۔ ایسا اس لئے ہوا کہ عدالتی حکم کے باوجود سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے اکائونٹس منجمد نہیں کئے گئے تھے۔ ایک سوال پر ان ذرائع کا کہنا تھا کہ نکلوائی گئی رقوم کے بارے میں تو معلوم نہیں ہو سکا کہ کتنی ہے، مگر دونوں بینکوں سے اچھی خاصی رقم نکلوائی گئی ہے، اور اب اب اکائونٹس میں صرف چند سو روپے موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایسا حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔ پہلے سابق صدر کو پورا موقع فراہم کیا گیا کہ وہ رقوم نکال لیں، اور اس کے بعد اکائونٹس کو منجمد کردیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ دونوں بینکوں میں موجود جن اعلیٰ افسران نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور مشرف کو سہولیات فراہم کیں، معاملہ کھلنے پر ان کے خلاف گرفت کی جاسکتی تھی۔ مگر بینک عملے کے ان لوگوں میں سے بیشتر ریٹائرمنٹ لے کر، ملازمت چھوڑ کر یا تبادلے کرا کے اپنے اہلخانہ سمیت بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں۔ اکا دکا کے سوا اب ان افسران و اہلکاروں میں سے کوئی بھی ملک کے اندر موجود نہیں۔ ذرائع نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان لوگوں سے اسی وعدے کے تحت کام لیا گیا کہ وہ اکائونٹس منجمد نہ کریں تو بدلے میں انہیں مراعات کے ساتھ بیرون ملک سیٹل کرادیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یقینی طور پر ان افسران و اہلکاروں پر دباؤ بھی ڈالا گیا ہوگا، جس سے انکار کی گنجائش نہیں تھی۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے عدالتی حکم پر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے اور بینکوں سے جواب طلب کرلیا گیا ہے۔ نیز دونوں بینکوں میں سے ضروری ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے خطوط بھی لکھ دیئے گئے ہیں۔ جبکہ بینکوں کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو بیانات کے لئے بھی طلب کرلیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ عدالت نے ایف آئی اے سے پندرہ فروری کو تفصیلی رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر باقاعدہ مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں توہین عدالت کا مقدمہ بھی چل سکتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment