افغان امن مذاکرات کی جلد بحالی کا امکان نہیں

امت رپورٹ
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار ہے، اور اس بات چیت کی جلد بحالی کا امکان نہیں۔ ان مذاکرات کی منسوخی کے پس پردہ حقائق سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت کی نئی تاریخ کا اعلان، اس وقت تک متوقع نہیں، جب تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا معاملہ اگلے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کرلیا جاتا۔ ذرائع نے بتایا کہ 9 اور 10 جنوری کو قطر میں شیڈول مذاکرات کے چوتھے اجلاس میں طالبان کی جانب سے شرکت سے اچانک انکار کا بنیادی سبب یہی تھا کہ امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق طے شدہ معاملے کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ جب عین وقت پر اجلاس کے ایجنڈے کی تفصیلات طالبان کے علم میں آئیں تو پتہ چلا کہ اجلاس کے ایجنڈے میں امریکی فوجیوں کی واپسی پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ بلکہ اس کی جگہ ایجنڈے میں طالبان کی فائر بندی اور افغان آئین میں تبدیلیوں سمیت اس نوعیت کے دیگر معاملات شامل کرلئے گئے ہیں اور ان ایشوز پر ہی ڈسکشن کی جائے گی۔ جس پر طالبان نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
طالبان سے رابطے میں رہنے والے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال طالبان کے لئے مایوس کن تھی۔ چوتھے دور کے اجلاس کے ایجنڈے میں امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ بلکہ فائر بندی کے معاملے کوایجنڈے کی ترجیح بنایا گیا تھا۔ حالانکہ طالبان کا یہ اولین مطالبہ رہا ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت کے لئے امریکی فوجیوں کا انخلا یا اس ضمن میں کوئی تاریخ دینا ضروری ہے۔ ذریعے کے بقول اگرچہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں امریکی نمائندے نے اتفاق کر لیا تھا کہ اگلے اجلاس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا ایشو بھی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے گا۔ لیکن وعدہ خلافی کی گئی۔ اور ابوظہبی میں ہونے والی میٹنگ میں اس ایشو کو زیر بحث نہیں لایا گیا اور طے پایا تھا کہ اگلے اجلاس میں یہ معاملہ ایجنڈے پر ہوگا۔ تاہم دوبارہ وعدہ خلافی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں طالبان نے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا اور اب امن بات چیت میں غیر معینہ مدت کے لئے ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے۔ امریکی وعدہ خلافی کا سرسری ذکر طالبان نے اپنے تازہ بیان میں بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ نومبر 2018ء میں دوہا میں ہونے والی میٹنگ میں امریکہ نے آمادگی ظاہر کی تھی کہ اگلے اجلاس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج نکالنے کے معاملے پر بھی بات ہوگی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس سے قبل سعودی حکام کی ضد پر طالبان نے ریاض سے اجلاس قطر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ کیونکہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے سعودی عرب نے طالبان پر حد درجہ دبائو بڑھا دیا تھا۔ جس پر ناراض ہوکر طالبان نے ریاض مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا۔ بدقسمتی سے یہ اجلاس امریکہ کی جانب سے ایجنڈے میں یکطرفہ اور اپنی پسند کے نکات شامل کرنے کی بھینٹ چڑھ گیا۔
ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شدید خواہش پر پاکستان نے کوشش کر کے دونوں ممالک کو افغان امن مذاکرات کا حصہ تو بنا دیا، تاہم اب یہ ممالک کچھ زیادہ سرگرم رول ادا کرنے کے لئے بے چین ہیں، اس سے خرابی پیدا ہو رہی ہے۔ ذرائع کے بقول ریاض میں مذاکرات کا چوتھا اجلاس شیڈول تھا اور سب ٹھیک چل رہا تھا کہ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے سعودی عرب نے نہ صرف طالبان پر دبائو بڑھایا، بلکہ اپنے طور پر اشرف غنی حکومت کے وفد کو ریاض کے مجوزہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دے ڈالی۔ یہ بات جب طالبان کے علم میں آئی تو انہوں نے یہ کہہ کر ریاض کی میٹنگ میں شرکت سے انکار کر دیا کہ سعودی اس معاملے میں مخلص دکھائی نہیں دے رہے۔ طالبان کا موقف تھا کہ وہ ریاض میں ہونے والے اجلاس میں بیٹھیے ہوں اور اوپر سے افغان حکومت کا وفد آجائے، اس سچویشن کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ وہ اجلاس کا بائیکاٹ کردیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان امن مذاکرات کی کامیابی پر غیر یقینی کے بادل چھانے کا ایک اور بڑا سبب یہ بھی ہے کہ امریکہ نے بات چیت میں روس، چین اور ایران جیسے خطے کے دیگر اسٹیک ہولڈر کو شامل نہیں کیا۔ جبکہ اس وقت طالبان پر روس اور ایران کا بڑا اثر و رسوخ ہے۔ بہت سی ہدایات طالبان ان دونوں ممالک کی طرف سے لے رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول جب تک امریکہ مذاکرات میں روس، چین اور ایران کو نہیں بٹھائے گا، افغان عمل کا سلسلہ آگے چلنا مشکل ہے۔ طالبان بھی یہی عندیہ دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات میں پیش رفت کے لئے طالبان کی جانب سے افغانستان سے امریکی انخلا سے متعلق طالبان کے مطالبے کو ایران اور روس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور ساتھ ہی یہ دونوں ممالک افغانستان سے امریکہ کے مستقل اڈوں کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایران اور روس کو خدشہ ہے کہ اگر امریکہ یہاں بیٹھا رہا تو افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں، بالخصوص وہ ممالک جنہیں وہ اپنا مخالف سمجھتا ہے، فساد پھیلاتا رہے گا۔ ذرائع کے بقول مذاکرات میں مدد دینے والے ممالک کو طالبان نے بھی یہ باور کرایا ہے کہ امریکہ، افغانستان سے اپنی فوج کو نکالنا چاہتا ہے، لیکن اپنے اڈے ختم کرنے کی بات نہیں کر رہا۔ جس سے اس کی بدنیتی دکھائی دیتی ہے۔
ادھر مذاکرات کی بحالی کی کوششوں میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اپنے چار ملکی دوروں کے سلسلے میں منگل کوکابل پہنچے تھے اور آج (جمعرات) ان کی پاکستان آمد متوقع ہے۔ ذرائع کے بقول زلمے خلیل زاد کے یہ دورے طالبان کو کابل حکومت سے مذاکرات پر قائل کرنے کی کوششوں کا سلسلہ ہے۔ اس ضمن میں اب تک ہونے والی پیش رفت پر وہ پاکستان سے بھی ان پٹ لیں گے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر اس حوالے سے روس اور ایران بھی پاکستان کے ساتھ مل کر طالبان کو قائل کریں تو شاید وہ مان جائیں۔ بصورت دیگر یہ ٹاسک مشکل ہے۔ جبکہ طالبان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک امریکی فوجیوں کے انخلا کا ایشو اگلے اجلاس کے ایجنڈے پر شامل نہیں کیا جائے گا، وہ شرکت نہیں کریں گے۔ دوسری جانب کابل کا امریکہ سے اصرار ہے کہ وہ پہلے طالبان کو اشرف غنی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کریں اور اس کے بعد ہی امریکی انخلا کا معاملہ ڈسکس کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق اس صورتحال میں مذاکرات کی فوری بحالی ممکن دکھائی نہیں دے رہی، کیونکہ فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔٭

Comments (0)
Add Comment