پہلا ایوارڈ لے کر گھر پہنچا تو سوتیلے والد نے بہت پیٹا تھا

ثناء اللہ خان احسن
معروف بھارتی اداکار اور مکالمہ نویس قادر خان نے بمبئی کی فلم نگری میں اپنی مصروفیات کے حوالے سے بتایا تھا کہ…’’ ایک طرف میں نے پرکاش مہرہ کے ساتھ کام کیا تو دوسری طرف من موہن ڈیسائی کے ساتھ۔ یہ دونوں بالکل مختلف سوچ کے حامل تھے۔ دونوں کی فلمیں بھی بالکل مختلف ہوتی تھیں۔ لیکن مجھے کبھی بھی کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔ جب من موہن سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو من موہن نے کہا تھا ’’تم میاں صاب لوگ کا اردو بہت اچھا ہوتا ہے، پر تم بھائی لوگ اردو سے بس شعر و شاعری کا ہی کام لیتا ہے‘‘۔ من موہن کی فلم ’’روٹی‘‘ کے بعد مجھے دھڑا دھڑ فلمیں ملنے لگیں۔
پرکاش مہرہ سے میری پہلی ملاقات اس سب سے بہت پہلے ہوئی تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں بمبئی کے صابو صدیق انسٹیٹیوٹ میں سول انجینئرنگ کا لیکچرار تھا۔ پرکاش مہرہ ہمارے کالج میں اپنی فلم ’’حسینہ مان جائے گی‘‘ (1968ئ) کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ وہ کچھ ڈائیلاگ سے مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے دوران لیکچر مجھے بلا بھیجا اور وہ ڈائیلاگ دکھا کر بولے… ’’کیا تم ان کو درست کر سکتے ہو؟‘‘۔ میں نے جب ان ڈائیلاگز کو درست کر کے لکھ دیا تو بہت خوش ہوئے اور بولے…’’ہاں، اب تو یہ بالکل فلمی ڈائیلاگ لگ رہے ہیں‘‘۔ میں نے جب تک فلموں کے ڈائیلاگ لکھنے شروع نہیں کئے تھے۔ اس کے بعد پرکاش مہرہ سے میری ملاقات فلم اسٹوڈیو میں ہوئی اور میں نے ان کیلئے جو پہلی فلم کے ڈائیلاگ لکھے اس کا نام ’’خون پسینہ‘‘ تھا۔ اس کے بعد میں نے ان کی فلموں ’’مقدر کا سکندر‘‘ اور ’’لاوارث‘‘ کے ڈائیلاگز لکھے۔ پرکاش مہرہ کو بالی ووڈ کی مصالحہ فلموں کا بانی کہا جاسکتا ہے، جن کے کریڈٹ پر ہیرا پھیری، مقدر کا سکندر، لاوارث اور نمک حلال جیسی بلاک بسٹر فلمیں شامل ہیں۔ جبکہ من موہن ڈیسائی سنجیدہ موضوعات پر سماجی فلمیں بناتے تھے۔ امیتابھ بچن سے میری دوستی پرکاش مہرہ کی فلم ’’خون پسینہ‘‘ اور من موہن ڈیسائی کی فلم ’’پرورش‘‘ کے دوران ہوئی۔ ہماری دوستی خوب پروان چڑھی۔ ہم اکثر فون پر بات کرتے اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتے تھے۔ لیکن بعد میں ان تعلقات میں دراڑ آگئی۔ میں اس پر بہت زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کہ ہمارے تعلقات کس لئے خراب ہوئے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں نے امیتابھ کو سیاست میں حصہ لینے سے منع کیا تھا۔ سیاست میں حصہ لینے کے بعد امیتابھ کا رویہ بدلتا گیا۔ میں امیتابھ کو ہمیشہ امیت کہہ کر پکارتا تھا۔ لیکن ایک دن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ امیتابھ کو میرا اسے بے تکلفی سے امیت کہنا پسند نہیں آرہا۔ سائوتھ انڈین فلموں کے ایک پروڈیوسر نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ ’سر جی‘ سے ملے‘‘؟۔ میں نے پوچھا کون سر جی۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، ’’آپ کو نہیں معلوم سر جی کون ہے؟ ارے اپنے امیتابھ بچن سر جی ہیں‘‘۔ میں نے اس کو بتایا کہ میں تو ان کو ہمیشہ سے امیت کہتا ہوں اور ہم پرانے دوست ہیں۔ وہ کہنے لگا ’’نہیں، اب آپ ہمیشہ ان کو سر جی بولنا، امیت نہیں بولنا ابھی۔ اب وہ ایک بہت بڑا آدمی ہے‘‘۔ اسی وقت امیتابھ بچن بھی ہماری طرف آرہے تھے اور انہوں نے یہ تمام گفتگو سن لی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے رویے سے یہی ظاہر کیا جیسے وہ فلم پروڈیوسر کی بات سے متفق ہیں۔ میں نے اس کے باوجود کبھی امیتابھ کو سر جی نہیں پکارا۔ بھلا کوئی اپنے بے تکلف پرانے دوست یا بھائی کو کس طرح سر جی پکار سکتا ہے۔ میرے منہ سے سر جی نہیں نکلا اور نتیجتاً میں امیتابھ کے گروپ سے نکل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں فلم ’’خدا گواہ‘‘ سے بھی الگ ہوا۔ میں فلم ’’گنگا جمنا سرسوتی‘‘ کے لئے لکھ رہا تھا، لیکن درمیان میں ہی الگ ہوگیا۔ اس کے علاوہ بھی امیتابھ کی کئی فلمیں تھیں، جن پر میں کام کر رہا تھا، لیکن مجھے ان سے الگ ہونا پڑا۔ (قادر خان نے تو بس اتنا ہی بتایا۔ لیکن گمان یہی ہے کہ امیتابھ نے اپنے اثرورسوخ سے کام لے کر قادر خان کو ان فلموں میں لکھنے سے رکوایا)۔ امیتابھ کے ساتھ میری آخری فلم ’’قلی‘‘ تھی۔ اس فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ تاہم میرا کام ختم ہوچکا تھا۔ امیتابھ نے مجھے بلایا اور کہنے لگے ’’تمہارا کام تو قلی میں ختم ہوگیا ہے۔ یہاں سے شوٹنگ کے پیک اپ کے بعد تم پرسوں مجھ سے ملنے آنا۔ ہم تمہاری نئی فلم کا انائونسمنٹ کریں گے، بلکہ اس کی مہورت ہی کر دیں گے‘‘۔ میں نے اس کے دو دن بعد امیت کو فون کیا تو امیتابھ کے بھائی اجیتابھ نے فون اٹھایا۔ اس نے مجھے بتایا ’’ابھی تم مت آئو۔ امیت کو شوٹنگ کے دوران چوٹ لگ گئی ہے۔ تم ایسا کرو دو دن بعد فون کرلینا‘‘۔ دو دن بعد میں نے فون کیا تو اجیتابھ کہنے لگے ’’امیت کا زخم بہت بگڑ گیا ہے اور اس کی حالت بہت سیریس ہوگئی ہے‘‘۔ یہ سن کر میں بہت پریشان ہوگیا۔ امیتابھ کی حالت واقعی بہت خراب تھی۔ ہم اس کو بمبئی لائے۔ وہ ایک لمبے عرصے تک اسپتال میں رہا اور اس کا علاج چلتا رہا۔ اس دوران امیتابھ کی دماغی حالت بھی بہت خراب ہوگئی تھی۔ امیتابھ بہت عرصے بعد صحت یاب ہوا اور زندگی کی مصروفیات میں حصہ لینے لگا تو اسی دوران اندرا گاندھی کا قتل ہوگیا۔ سنجے گاندھی حکومت میں آئے تو انہوں نے امیتابھ کو بلا بھیجا۔ امیتابھ الیکشن لڑ کر MPA بن گئے۔ اس کے بعد امیتابھ کا رویہ یکسر تبدیل ہوگیا اور وہ واقعی سر جی بن گئے۔ اس کے بعد سے میں نے کبھی امیتابھ سے بات نہیں کی اور نہ امیتابھ نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی۔
پرکاش مہرہ اور من موہن ڈیسائی جیسے دو مختلف سوچ کے ہدایتکاروں کے لئے لکھنے کے ساتھ ساتھ میں نے ڈیوڈ دھاون کے ساتھ بھی بے شمار کام کیا، جن کی فلمیں کامیڈی ہوتی ہیں۔ میں نے ڈیوڈ دھاون اور گووندا کی نمبر ون سیریز کی فلموں کیلئے لکھا۔ اس سلسلے کی پہلی فلم ’’قلی نمبر ون‘‘ تھی، جو 1995ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد ’’ہیرو نمبر ون‘‘، ’’بیوی نمبر ون‘‘ اور ’’اناڑی نمبر ون‘‘ تھی، جس میں میں نے گووندا کے ساتھ اداکاری کی۔ نمبر ون سیریز کی فلموں میں فرق یہ تھا کہ ان فلموں میں، میں نے اداکاری تو کی لیکن اسکرین پلے یا ڈائیلاگ میرے نہیں تھے، بلکہ ان فلموں کے ڈائیلاگ رومی جعفری نے لکھے۔ میں ان فلموں میں صرف اپنے اور گووندا کے ڈائیلاگ لکھتا تھا۔ یہ ایک بہت مختلف اور دشوار کام تھا، کیونکہ پوری فلم کیلئے اسکرین پلے اور ڈائیلاگ لکھنا اور کہاں صرف دو کرداروں کیلئے ڈائیلاگ لکھنا۔ لیکن میں پھر بھی ڈیوڈ دھاون اور گووندا کے ساتھ کام کرتا رہا۔ ان کے ساتھ میں نے ’’آنکھیں‘‘ اور ’’حسینہ مان جائے گی‘‘ سے اسٹارٹ لیا تھا۔ میری ان کے ساتھ آخری فلم ’’قلی نمبر ون‘‘ تھی۔
پھر فلموں میں ایک بدلائو اور تکنیک کا طوفان سا آگیا۔ میں ذو معنی مکالمے نہیں لکھ سکتا تھا، جو تماشائی کی سوچ کے مطابق فحش اور گندے معنی بھی دے سکیں۔ گووندا ایک بہت اچھا کامیڈین ہے، جس کے ساتھ کام کرکے میری مزاح نگاری میں بہتری آئی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک یہ وقت تھا کہ میں اپنے دور کے مشہور ترین اداکاروں اور فلمسازوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اور پیسہ مجھ پر برس رہا تھا۔ تو ایک طرف وہ دور بھی تھا کہ جب میں اپنے پہلے پلے ’’لوکل ٹرین‘‘ کی ایوارڈ ٹرافی لے کر گھر پہنچا تھا تو میرے سوتیلے باپ کا موڈ پہلے سے خراب تھا۔ اس نے اس ٹرافی کو حقارت سے دیکھا اور مجھے گالیاں دینے اور مارنے لگا۔ شاید اس کے اندر کا حسد اور جلن اس دن بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ وہ یہ دیکھ کر زچ ہوگیا تھا کہ جس بلونگڑے جیسے چھوکرے کو میں نے زندگی بھر مارا پیٹا اور حقیر سمجھا، وہ آج اس قابل ہوگیا کہ دنیا اس کی قابلیت کا اعتراف کر رہی ہے۔ اس نے مجھے اتنا مارا کہ میرے جسم پر نیل پڑ گئے اور اس نے دھکے دے کر مجھے گھر سے نکال کر دروازہ بند کرلیا۔ میری ماں یہ سب دیکھ کر روتی رہی، لیکن وہ کچھ کرنے کے قابل نہ تھی۔ میں اس کالج کے پرنسپل کے پاس پہنچا، جہاں میں پڑھایا کرتا تھا اور ان سے مدد مانگی۔ پرنسپل نے میرا حال دیکھ کر کہا کہ میں اسٹاف کوارٹر میں رہ سکتا ہوں۔ اس نے مجھے ایک پلنگ، تکیہ اور ایک چادر دے دی، جس پر میں نے رات گزاری۔ پھر میں کئی سال تک اسی طرح رہتا رہا۔ میں دن کے وقت اپنی ماں سے ملنے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے کہتی کہ واپس آجا، لیکن میں نے انکار کردیا۔ میں بچپن سے اس شخص کی گالیاں اور مار سہتا آیا تھا۔ وہ شخص کوئی کام نہیں کرتا تھا، حالانکہ وہ بہت اچھا کارپینٹر تھا۔ لیکن اس کے یار دوست اس کو دارو پینے لے جاتے یا پھر جوا اور گانجا۔ وہ رات میں دارو پی کر گھر میں گھستا اور گالیاں بکتا۔ مجھے اور میری ماں کو مارتا پیٹتا۔ وہ کمانا چاہتا ہی نہیں تھا۔ ہمارے لئے ہفتے میں دو دن فاقہ لازمی بن گیا تھا۔ جب گھر میں دو تین وقت کا فاقہ ہو جاتا تو وہ مجھے مارتا پیٹتا اور مجھ سے کہتا کہ جا اپنے باپ سے کچھ پیسے لے کر آ۔ میں اپنے باپ کے پاس جاتا تو وہ مجھ سے پوچھتا کہ کیا چاہئے؟۔ میں کہتا کہ مجھے دو روپے چاہئیں۔ وہ کہتا کہ میں تو خود مہینے کی چھ روپے کماتا ہوں، تجھے دو روپے کہاں سے دوں۔ لیکن پھر وہ کسی نہ کسی طرح مجھے دو روپے دے ہی دیتا۔ میں ان پیسوں سے کچھ آٹا دال اور گھی نمک وغیرہ بھی خرید لیتا۔ جب میں یہ سب لے کر گھر پہنچتا تو میری ماں ہمارے لئے روٹی پکاتی‘‘۔
قادر خان نے اپنے مختلف انٹرویوز میں مکالمہ نگاری اور فلموں میں اداکاری کے دو مختلف ادوار بیان کئے ہیں۔ پہلے ہم قادر خان کی بطور مکالمہ نگار، فلموں میں کامیابی کا بیان سنتے ہیں۔ قادر خان کہتے تھے… ’’میں نے کبھی بھی فلمی دنیا میں داخلے کیلئے اسٹوڈیوز کے چکر لگائے، نہ کسی کی خوشامد کی۔ بلکہ یہ سب خود چل کر میرے پاس آئے۔ یہ جو میرے ڈائیلاگز میں کڑواہٹ اور تندی ہے، اسی وجہ سے ہے کہ میں نے زندگی میں یہ سب دیکھا اور بھگتا ہے۔ میں انتہائی کٹھن اور کڑے حالات سے گزرا ہوں۔ میرا کوئی استاد نہیں، لیکن مجھے وقت نے سب کچھ سکھا دیا۔ میں نے اپنے اندر کی گھٹن اور احساس محرومی کو اپنی تحریریں لکھ کر نکالا۔ وقت کی اس استادی نے مجھے ایسا استاد بنادیا کہ مجھے بہترین استاد کا ایوارڈ ملا۔ فلم ’’روٹی‘‘ کے ڈائیلاگ کا مجھے اس زمانے کا سب سے زیادہ معاوضہ دیا گیا تھا۔ اس فلم کے پروڈیوسر راجیش کھنہ تھے، جنہوں نے من موہن ڈیسائی سے کہہ کر مجھے ایک لاکھ 26 ہزار روپے معاوضہ دلوایا۔ اس کے بعد میں نے راجیش کھنہ کی لیڈ رول والی فلموں کے ڈائیلاگ لکھے، جن میں مہا چور، چھیلا بابو، دھرم کانٹا، ففٹی ففٹی، نیا قدم، ماسٹر جی اور نصیحت شامل ہیں۔ یہ تمام فلمیں باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے جیتندر کی سپر ہٹ فلموں ہمت والا، جانی دوست، سرفروش، جسٹس چوہدری، فرض اور قانون، جیو اور جینے دو، تحفہ، قیدی اور حیثیت کیلئے بھی مکالمہ نگاری کی۔
میری دلیپ کمار سے ملاقات کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ یہ 1969-70ء کی بات ہے، جب میں بمبئی کے ایک کالج میں پڑھا بھی رہا تھا اور تھیٹر میں اداکاری بھی کرتا تھا۔ فلموں میں اداکاری کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اس زمانے میں، میں ایک اسٹیج ڈرامہ ’’تاش کے پتے‘‘ میں ایک رول کررہا تھا۔ اس ڈرامے کا رائٹر اور ہدایتکار بھی میں تھا۔ اس دور کے مشہور کامیڈین آغا صاحب بھی وہ ڈرامہ دیکھنے آئے۔ انہیں یہ کھیل اتنا پسند آیا کہ انہوں نے میرا ذکر دلیپ کمار صاحب سے کیا۔ ایک دن مجھے ایک فون کال آئی۔ میں نے پوچھا کون بول رہا ہے؟۔ دوسری طرف سے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا گیا کہ میں یوسف خان بول رہا ہوں۔ میں نے پوچھا، کون یوسف خان؟۔ کہنے لگے، لوگ جسے دلیپ کمار کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ سن کر فون میرے ہاتھ سے پھسل گیا۔ دلیپ کمار میرا پلے دیکھنے آئے اور میری اداکاری سے اتنا متاثر ہوئے کہ اسٹیج پر آکر کہنے لگے کہ میں بڑا خوش نصیب ہوں کہ قادر خان نے مجھے یہ کھیل دیکھنے کی دعوت دی اور مجھے بلایا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہمارے اسٹیج پر اتنے بہترین اداکار کام کر رہے ہیں۔ ان سب کو ضرور فلموں میں موقع ملنا چاہئے۔ فی الحال میں قادر خان کو اپنی اگلی فلم ’’ساگینا مھاتو‘‘ میں ایک رول دوں گا، جس کی کل سے شوٹنگ شروع ہو رہی ہے۔ اس کے ایک ہفتے بعد میری فلم ’’بیراگ‘‘ بھی شروع ہونے والی ہے، جس میں قادر خان کو ایک بہت اہم کردار دیا جائے گا۔ اس طرح میری فلموں میں اداکاری کا دور شروع ہوا۔ لیکن دلیپ صاحب سال میں صرف ایک فلم کیا کرتے تھے، تو میری اداکاری کا سفر بہت سست روی سے بڑھتا رہا۔ البتہ میرا بمبئی کے انجینئرنگ کالج میں ٹیچنگ اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ مستقل چلتا رہا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment