حمزہ شہباز اہلیہ کی تیمارداری کے لئے لندن جانا چاہتے ہیں

مرزا عبدالقدوس
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کے خلاف صاف پانی کیس اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں انکوائریاں چل رہی ہیں۔ اسی بنیاد پر انہیں گزشتہ سال 27 نومبر کو اس وقت لندن جانے سے روک دیا گیا تھا، جب وہ براستہ دوحا لندن جانے کیلئے لاہور ایئرپورٹ پہنچے تھے۔ جس کے بعد انہوں نے اعظم نذیر ایڈووکیٹ کی ساطت سے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اب انہیں عدالت نے دس دن کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں موجود ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز کی اہلیہ رابعہ گزشتہ کئی ماہ سے علیل ہیں اور لندن میں زیر علاج ہیں۔ جبکہ ان کے دو بچے بھی وہیں ہیں۔ حمزہ شہباز اہلیہ کی تیمار داری کیلئے لندن جانا چاہتے تھے کہ انہیں دوبارہ روکا گیا، لیکن اب لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد وہ لندن روانہ ہوں گے، جہاں ان کے بھائی اور شہباز خاندان کے کاروباری معاملات کے نگران سلمان شہباز بھی موجود ہیں۔ معتبر ذرائع نے بتایا کہ سلمان شہباز برطانیہ میں قیام کے دوران چین اور بعض عرب ممالک کے متعدد دورے بھی کر چکے ہیں، جہاں ان کے کاروباری مفادات وابستہ ہیں۔ سلمان شہباز ستائیں اکتوبر 2018ء کو تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے دو ماہ بعد ہی بیرون ملک چلے گئے تھے اور واپس نہیں آئے۔ نیب اور بعض دیگر سرکاری اداروں کو خدشہ تھا کہ اپنے خلاف متعدد کیسز کی انکوائریاں ہونے کی وجہ سے حمزہ شہباز بھی بیروں ملک ہی مستقل قیام کر سکتے ہیں، اس لئے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا تھا۔ تاہم اب لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عدنان نے نہ صرف انہیں دس دن کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے، بلکہ نیب سے پندرہ دن میں رپورٹ بھی طلب کرلی ہے کہ حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا گیا تھا۔ اس موقع پر محترم جج نے نیب کے خلاف سخت ریمارکس دیئے اور کہا کہ، کیا نیب یہ ملک چلائے گی؟
اب اہم سوال یہ ہے کہ حمزہ شہباز شریف واپس آئیں گے یا اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے بہانے ان کا لندن میں قیام طویل بھی ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اس امکان کو مسترد کر دیا کہ حمزہ شہباز کا بیرون ملک قیام عدالت کی جانب سے مقرر کی گئی مدت سے بڑھ جائے گا۔ اس رہنما کے مطابق مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے دوران میں جب نون لیگ اور خاص طور پر شریف خاندان پر بُرا وقت تھا، اور خاندان کے تمام افراد جدہ میں جلا وطن تھے، تب بھی حمزہ شہباز نے جو اس وقت جواں سال تھے، بڑی جرأت اور بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا اور ملک میں رہ کر اپنے کاروباری اور خاندانی مفادات کا تحفظ کیا۔ اُس وقت حمزہ شہباز کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ لیکن اب حالات جتنے مشکل بھی ہوں، لیکن مکمل سیاسی اور جمہوری آزادی ہے۔ ان کے والد قومی اسمبلی میں اور وہ خود پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ دوسری بڑی جماعت جو ملک میں پوری طرح محترک ہے، وہ ان کے خاندان اور ان کی پشت پر کھڑی ہے تو مشرف کے کڑے حالات میں ثابت قدم رہنے والے حمزہ شہباز جو سترہ اٹھارہ سال کے تجربے کے بعد پختہ کار اور تجربہ کار سیاسی ورکر بن چکے ہیں، بیرون ملک کیوں راہ فرار اختیار کریں گے۔ اس ذریعے کے بقول حمزہ شہباز کے والد شہباز شریف کے خلاف بھی اب تک تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ان کے خلاف کوئی باقاعدہ ریفرینس عدالت میں فائل نہیں ہوا۔ اسی طرح حمزہ کے خلاف بھی محض دو تین انکوائریز ہورہی ہیں۔ ان کا بیرون ملک مستقل قیام کا کوئی امکان یا ارادہ نہیں ہے۔
بعض دیگر ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف کے مقتدر حلقوں سے اب بھی اچھے روابط ہیں، جو بدستور بہتر ہو رہے ہیں۔ شہباز شریف گرفتاری کے باوجود بھرپور پارلیمانی سیاست کر رہے ہیں۔ ہرماہ میں چودہ پندرہ دن وہ اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور منسٹر کالونی جہاں ان کی رہائش گاہ ہے، آزادنہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں۔ گھنٹوں اسمبلی ایوان میں بلا تکان اور کسی روک ٹوک کے بغیر تقاریر کرتے ہیں، جو پی ٹی وی اور بعض نجی چینلز براہ راست دکھاتے ہیں۔ اس لئے شہباز خاندان نواز شریف فیملی کے مقابلے میں موجودہ صورت حال میں کافی مطمئن ہے۔ حمزہ شہباز کو بیرون ملک جانے کے لئے ریلیف ملنا بھی اسی اطمینان اور روابط کی کڑی ہے۔ ذریعے کے مطابق گو کہ نواز شریف اس صورتحال سے ناخوش ہیں اور مجبوری کے عالم میں انہوں نے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی پرانی مفاہمانہ پالیسی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی باقی نہیں رہ گیا۔ ان کے دونوں بیٹے اشتہاری ہیں۔ بیٹی عارضی عدالتی ریلیف پر گھر میں ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت اپیل کا فیصلہ خلاف آنے پر انہیں بھی جیل پہنچایا سکتا ہے۔ جبکہ نواز شریف جیل میں ہیں اور ان کے خلاف مزید کیسز بھی زیر سماعت ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment