مزدوروں کی ہلاکت کے بعد داسو ڈیم پر کام بند

امت رپورٹ
کوہستان میں داسو ڈیم کے مزدوروں کی ہلاکت کے بعد ڈیم پر کام بند ہوگیا ہے۔ یہ مزدور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔ قبائل اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں، جو ناکام رہے۔ آج (جمعہ کو) ایک بار پھر مذاکرات ہوں گے۔ قبائل جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو فی کس چالیس لاکھ روپے معاوضہ دینے، ان کے خاندان کے دو افراد کو سرکاری ملازمتیں دینے اور تعمیراتی کام کے دوران ملبے کو دریائے سندھ اور آبادیوں میں پھینکنے کے بجائے محفوظ انداز میں ٹھکانے لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ میں ڈالا جانے والا ملبہ تربیلا ڈیم کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے آٹھ مزدور کام ختم کر کے واپس جارہے تھے کہ لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر موقع ہی پر جاں بحق ہوگئے۔ اس حادثے کے بعد کوہستان کے تمام قبائل نے احتجاج شروع کر دیا اور شاہراہ قراقرم پر دھرنا دے کر تمام ملکی اور بین الاقوامی ٹریفک کو بند کر دیا تھا۔ بعد ازاں منگل اور بدھ کی درمیانی شب، شدید بارش کے بعد شاہراہ کو کھول دیا گیا ہے، تاہم داسو ڈیم پر جاری کام تاحال بند ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق قبائل مطالبہ کر رہے ہیں کہ جاں بحق مزدوروں کے لواحقین کو فی کسچالیس لاکھ روپے اور ان کے خاندان کے دو افراد کو ملازمتیں دی جائیں۔ ذرائع کے مطابق واپڈا اور چین کی ٹھیکدار کمپنی نے ابتدائی مذاکرات میں فی کس نو لاکھ روپے دینے کی حامی بھری تھی، جسے قبائل نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ انشورنش کی رقم ہے، جو کسی بھی حادثے کی صورت میں ادا کرنی ہی ہے۔ جبکہ یہ حادثہ تو کمپنی کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ کیونکہ کمپنی نے ملبے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے نہیں لگایا تھا، جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات کے دوسرے دور میں ڈپٹی کمشنر کوہستان نے قبائل کو آفر دی تھی کہ وہ ضلع حکومت کی جانب سے بھی تمام متاثرہ خاندانوں کو تین تین لاکھ روپے ادا کریں گے، مگر قبائیل نے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی۔ جس کے بعد طے کیا گیا کہ مذاکرات کا ایک اور دور آج (جمعہ کے روز) ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ داسو ڈیم پرکام اب بھی بند ہے۔ جب تک قبائل کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے، انہوں نے انتظامیہ سے کہہ دیا ہے کہ داسو ڈیم پر کام بند رکھا جائے، ورنہ اس سے قبائل میں اشتعال پیدا ہوگا۔ انتظامیہ کے ذرائع مطابق واپڈا نے جذبہ خیر سگالی کے تحت مذاکرات کی کامیابی تک خود ہی داسو ڈیم پر کام بند کر رکھا ہے۔
قبائل کی قیادت کرنے والے کمیالہ کوہستان کی جامع مسجد کے خطیب مولانا عطاء الرحمن نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’اب تک دو مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں، جو کامیاب نہیں ہوئے۔ ہم طویل عرصہ سے شکایات درج کروا رہے ہیں کہ داسو ڈیم کی طرف آنے والی سڑک کے متبادل جو روڈ تعمیر کی جارہی ہے، اس کا ملبہ اہالیان کوہستان کے لئے وبال جان بن چکا ہے۔ کمپنی رات کے اندھیرے میں کام کرتی ہے اور سارا ملبہ دریائے سندھ میں ڈال دیا جاتا ہے یا اسے آبادیوں اور سڑک کے کنارے پھینک دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ٹھیکدار کمپنی اس بات کی پابند ہے کہ وہ ہر صورت میں ملبے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے لگائے۔ پھر انتہائی غیر محفوظ انداز میں بلاسٹنگ کی جاتی ہے، جس سے پہاڑ کمزور ہو چکے ہیں۔ حالیہ حادثہ بھی اسی وجہ سے پیش آیا ہے۔ ورلڈ بینک نے بھی ملبے کو محفوظ انداز میں ٹھکانے لگانے کی شرط عائد کر رکھی ہے‘‘۔ ایک سوال پر مولانا عطاء الرحمن کا کہنا تھا کہ پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے۔ اب واپڈا سمیت ٹھیکدار کمپنی کو بھی احتیاط سے کام کرنا ہوگا اور نقصانات کا ازالہ کرنا ہوگا۔ دوسری جانب کوہستان انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق مذاکرات جاری ہیں اور امید ہے جلد کامیاب ہوجائیں گے۔ قبائل کی جانب سے شکایات پر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور واپڈا بھی اس پر کاروائی کر رہا ہے۔ ڈیم پر کام قبائل کو مزید مشتعل نہ کرنے اور تیز بارش کی وجہ سے بند ہے۔
صوبہ خیبرپختون کے محکمہ ماحولیات کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان رشید نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دریائے سندھ میں ملبہ ڈالنے سے نہ صرف دریا کا قدرتی پانی آلودہ ہو رہا ہے، بلکہ نایاب مچھلیوں اور دیگر آبی جانداروں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہی پانی تربیلہ ڈیم میں پہنچتا ہے اور اس سے تربیلہ ڈیم کو بھی مزید نقصان پہنچ رہا ہوگا اور یہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ڈیم بناتے بناتے کہیں ہم تربیلہ ڈیم اور دریائے سندھ جو پہلے ہی ریت بھرنے جیسے مسائل کا شکار ہے، سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا، جس کا ازالہ بھی ممکن نہیں۔
بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ حالیہ حادثے سے متعلق سابق ناظم یونین بڑھیا کوھستان محمد افضل کا کہنا تھا کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدور کام کے بعد واپس اپنے گھروں کو جارہے تھے کہ اوپر سے گرنے والے تودے کے نیچے دب گئے۔ جب مزدور اپنے گھروں کو نہیں پہنچے تو ان کے رشتہ دار ان کی تلاش میں نکل پڑے۔ لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں دبنے والے مزدوروں کی لاشیں کئی گھنٹے بعد اس وقت بر آمد ہوئیں جب روڈ کھولنے کے لئے تودے کو ہٹانے کے لئے بھاری مشنیری کو لایا گیا۔ محمد افضل کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں کہ یہ حادثہ غیر محفوظ انداز میں تعمیرات کا نتیجہ ہے۔ محمد امجد جن کے اس حادثے میں چار قریبی عزیز دادا، ماموں، بھائی اور خالہ زاد بھائی جان بحق ہوئے، نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ان کے علاقے میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ان کے پیارے مزدوری کرنے گئے تھے اور اسی مٹی میں دب کر ہلاک ہوگئے جس کو انہوں نے کھودا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا احتجاج کسی بھی صورت میں ختم نہیں ہوگا‘‘۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پاکستان کے لئے اہم ترین سمجھا جانے والے پانی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ اسلام آباد سے 350 کلومیٹر پر صوبہ خیبرپختون کے آخری ضلع کوہستان میں دریائے سندھ پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ یہ ڈیم بھاشا دیامر ڈیم کے مجوزہ مقام سے 74 کلو میٹر نچلی جانب واقع ہے۔ ڈیم کی افتتاحی تقریب 2014ء میں منعقد ہوئی تھی، جبکہ گزشتہ سال اس پر باقاعدہ کام شروع کیا گیا اور اس کا ٹھیکہ چین کی ایک کمپنی کو دیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 2023ء میں تقریباً پانچ بلین ڈالر اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگا۔ جس سے پاکستان کو 4320 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی۔ جبکہ دوسرے مرحلے کے مکمل ہونے پر مجموعی طور پر 5400 میگا واٹ بجلی حاصل ہوسکے گی۔ مجموعی طور پر یہ ڈیم 242 میٹر اونچا ہوگا اور اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1410 کیوبک میٹر ہوگی۔ ڈیم کے لئے ورلڈ بینک سمیت متعدد بین الاقوامی ادارے امداد فراہم کر رہے ہیں، جس میں ورلڈ بینک سات سو ملین ڈالر فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ چین اور دیگر امداد بھی اس میں شامل ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment