قاضی شریحؒ کے فضل وعلم واخلاق کے جاننے والوں کو حد درجہ افسوس تھا کہ انہیں کچھ عرصہ پہلے مدینہ منورہ آنے کی سعادت مل جاتی تو یہ رسول اقدسؐ کے زیارت کا شرف حاصل کرلیتے اور آپؐ کی صحبت سے براہ راست ہدایت پاتے اور انہیں ایمان کے ساتھ ساتھ شرف صحابیت بھی حاصل ہوجاتا۔
اس طرح خیرو بھلائی ہر طرف سے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی، لیکن یہ ان کے مقدر میں نہ تھا، ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق ؐ نے اس وقت جب کہ اکابر صحابہؓ موجود تھے، ان کی موجودگی میں ایک تابعی کو اتنا بڑا منصب سونپ کر کسی جلد بازی سے کام نہیں لیا (بلکہ جس میں جو صلاحیت دیکھی وہ منصب اس کو عطا کردیا)
اسی لیے آپ کے بعد حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ سب نے ہی ان کو اس عہدے پر قائم رکھا۔ یہاں تک کہ حضرت معاویہؓ کے بعد کے خلفاء بنی امیہ نے بھی آپ کو اس منصب پر قائم رکھا۔
آپ نے ایک سوسات (۱۰۷) سال تک کی عمر پائی، جس میں سے ساٹھ سال تک خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے قاضی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔
مسلمانوں کی تاریخ کے صفحات قاضی شریحؒ کے مبارک عدالتی فیصلوں، پسندیدہ اقوال اور قابل رشک کارناموں، سے بھرے ہوئے ہیں، جس سے ہر خاص وعام فائدہ اٹھاتا ہے اور اسلام کے اس مبارک نظام کی بلندی اس کے دل ودماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔ ان میں سے چند فیصلے ملاحظ ہوں۔
پہلا فیصلہ:
ایک روز حضرت علیؓ کی پسندیدہ اور قیمتی زرہ (جو جنگ کے زمانے میں حفاظت کیلئے پہنی جاتی ہے) گم ہوگئی، تھوڑی ہی عرصے بعد انہوں نے ایک ذمی شخص (مسلمان حکومت کے ماتحت رہنے والاغیر مسلم) کو دیکھا وہ زرہ کوفہ کے بازار میں بیچ رہا ہے۔
حضرت علیؓ نے اس زرہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور فرمایا:
ترجمہ ’’ارے یہ زرہ میری ہے، ایک رات دوران سفر راستے میں اونٹ پر سے گرگئی تھی۔‘‘
ذمی نے کہا: امیر المؤمنین! یہ میری زرہ ہے، اس لئے کہ یہ میرے قبضہ میں ہے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: یہ زرہ تو میری ہے، نہ تو میں نے یہ کسی کے ہاتھ بیچی ہے اور نہ ہی میں نے کسی کو تحفہ میں دی ہے۔
ذمی نے کہا: میرے اور آپ کے درمیان کوئی مسلمان قاضی جو فیصلہ کردے مجھے منظور ہے۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا: آپ درست کہتے ہیں، چلئے ابھی قاضی کے پاس چلتے ہیں۔ دونوں چلے گئے ۔
قاضی شریحؒ نے حضرت علیؓ سے پوچھا: آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
حضرت علیؓ نے فرمایا: میں نے اپنی یہ زرہ اس شخص کے پاس پائی ہے جو مجھ سے فلاں رات میں، فلاں جگہ سفر کے دوران گر گئی تھی اور اس شخص نے نہ تو یہ زرہ کسی سے خریدا ہے اور نہ اس کے پاس کسی کی طرف سے ہدیہ آئی ہے، لہٰذا یہ زرہ مجھے واپس دلا دی جائے۔
قاضی شریحؒ نے ذمی سے کہا: آپ اس کے متعلق کیا کہنا پسند کریں گے؟
اس نے کہا: یہ زرہ میری ہے، چونکہ اس وقت میرے قبضہ میں ہے اور میں امیر المؤمنین پر کسی قسم کا کوئی الزام لگانا نہیں چاہتا ہوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭