نجم الحسن عارف
تحریک لبیک کے قائد علامہ خادم حسین رضوی کی مسجد اور مدرسہ کو پولیس نے پھر سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ پولیس اہلکار رات کو سونے اور آرام کیلئے جامع مسجد رحمۃ اللعالمینؐ کا ہال استعمال کر رہے ہیں۔ مسجد اور مدرسہ جامعہ ابوذر غفاریؓ کے دروازے پر سارا دن پولیس اہلکاروں کی تعیناتی سے علاقے کے مکینوں میں خوف و ہراس کی فضا کم نہیں ہو سکی۔ اسی وجہ سے مدرسے کے طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی کمی ہوگئی ہے۔ سوا سو طلبہ میں سے صرف بیس سے پچیس طلبہ باقی رہ گئے ہیں۔ سی آئی اے ماڈل ٹائون میں زیر تفتیش علامہ خادم حسین رضوی سے تحریک لبیک کے لوگوں کو اب بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اہل خانہ کی ملاقات کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پچھلے ماہ کے شروع میں طارق عزیز قادری کی درخواست پر پولیس اور رینجرز کو مسجد کے ساتھ ساتھ مدرسہ خالی کر دینے کا بھی حکم دیا تھا۔ جس کے بعد تقریباً دو ہفتے تک مسجد میں مقیم رہنے والے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے اپنا محاصرہ ختم کر دیا تھا اور عدالتی حکم کے مطابق مسجد اور مدرسہ سے دور چلے گئے تھے۔ لیکن یثرب کالونی کے مکینوں سے نمائندہ ’’امت‘‘ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ رینجرز اہلکار تو چلے گئے ہیں، لیکن چند دن کے بعد ہی دوبارہ سے پولیس اہلکاروں نے مسجد کے دروازے کے علاوہ مدرسے کے گیٹ کے باہر بھی ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ نماز فجر سے عشا تک پولیس اہلکار ہر آنے جانے والوں کی نگرانی کرتے ہیں اور جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو نماز جمعہ کیلئے آنے والوں کی مکمل جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔ جامہ تلاشی کے بعد ہی نمازیوں کو مسجد میں داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ مکینوں کا کہنا تھا کہ پولیس کے اہلکار نہ صرف نماز فجر سے نماز عشا کے بعد تک مسجد و مدرسہ کے باہر موجود رہتے ہیں، بلکہ رات کو پہلے کی طرح مسجد کے ہال میں ’’استراحت‘‘ کرتے ہیں۔ مکینوں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عدالتی حکم کے بعد بھی پولیس کی طرف سے مسجد و مدرسہ کا محاصرہ ظاہر کرتا ہے کہ ابھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تاہم ان مکینوں نے تسلیم کیا کہ علامہ خادم حسین رضوی کے اہل خانہ اب کہیں آنا جانا چاہیں تو انہیں روکا نہیں جاتا۔ خیال رہے کہ 23 نومبر کو وفاقی و صوبائی حکومت کے مشترکہ فیصلے کے تحت تحریک لبیک پاکستان کیخلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا، جس میں تحریک لبیک کی اعلیٰ ترین قیادت کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اب گاہے گاہے علامہ خادم حسین رضوی کے اہل خانہ کو آتے جاتے دیکھا گیا ہے، لیکن ان کے بیٹے کہاں ہیں، وہ خود کہیں روپوش ہیں یا انہیں گرفتار کرکے کہیں رکھا گیا ہے، اہل محلہ اس حوالے سے کچھ نہیں جانتے۔ اہل محلہ نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ یہیں مقیم ہوتے تو مسجد میں کسی نہ کسی نماز کے وقت ضرور نظر آجاتے، لیکن عرصہ ہوا وہ مسجد میں نہیں آرہے ہیں۔ مسجد میں نمازوں کی ادائیگی کیلئے جانے والے اہل علاقہ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ مسجد میں تحریک لبیک کے کارکن اور حامی پہلے کی طرح زور و شور سے ’’لبیک یارسول اللہؐ‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ اس دوران بالعموم ایک جذباتی ماحول بن جاتا ہے۔ لیکن ان کارکنوں اور حامیوں کی ان نعروں کے علاوہ کوئی سرگرمی نہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ بچیوں کے مدرسے میں جہاں علامہ خادم حسین رضوی کی بیٹیاں بھی بطور معلمہ خدمات سرانجام دیتی ہیں، اس میں ازسرنو تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ البتہ بچوں کیلئے قائم مدرسے پر 23 نومبر کو آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحول کی وجہ سے کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لڑکوں کیلئے قائم مدرسے میں طلبہ کی تعداد کئی گنا کم ہو کر محض بیس پچیس رہ گئی ہے۔ علاقے کے مکینوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انیس سو پیسنٹھ کی جنگ سے کچھ ہی پہلے قائم ہونے والی یثرب کالونی میں جامع مسجد رحمۃ اللعالمینؐ قائم ہوئی تھی اور علامہ خادم حسین رضوی نے اس مسجد میں بطور خطیب ایک نوجوان کے طور پر جوائن کیا تھا۔ ان کی شادی بھی اس مسجد میں خدمات کے شروع کرنے کے بعد ہوئی۔ تاہم مسجد سے ملنے والے معمولی مشاہرے کے ساتھ ساتھ ان کے بڑے بھائی گائوں سے ان کیلئے اور ان کے بچوں کیلئے سپورٹ کرتے رہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے مسجد کے ساتھ والا مکان بھی کئی سال قبل خرید لیا تھا۔
٭٭٭٭٭