خدا و خلق کا محبوب کیسے بنیں؟

اگر کوئی یہ چاہے کہ اس سے خدا اور اس کے بندے محبت کریں تو اس کو چاہئے کہ وہ دنیا سے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے، اس سے اعراض اور بے رخی اختیار کرے جیسا کہ حدیث شریف میں ذکر کیا گیا
ترجمہ: ’’رسول اقدسؐ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا: حضور! مجھے ایسا کوئی عمل بتلائیے کہ جب میں اس کو کروں تو خدا بھی مجھ سے محبت کرے اور اس کے بندے بھی مجھ سے محبت کریں؟
آپؐ نے فرمایا: دنیا کی طرف سے اعراض اور بے رخی اختیار کرلو، تو خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور جو (مال و جاہ) لوگوں کے پاس ہے، اس سے اعراض اور بے رخی اختیار کرلو، تو لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ، ابواب الزہد، باب الزہد فی الدنیا: ص 302)
یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی محبت اور چاہت ہی آدمی سے وہ سارے کام کراتی ہے، جن کی وجہ سے وہ اس کی محبت کے لائق نہیں رہتا، اس لیے اس کی محبت حاصل کرنے کی راہ یہی ہے کہ دنیا کی چاہت اور رغبت دل میں نہ رہے۔ جب دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی تو دل خدا کی محبت کے لیے فارغ ہو جائے گا اور پھر اس کی اطاعت اور فرماں برداری ایسی خالص ہونے لگے گی، کہ وہ بندہ خدا کو محبوب اور پیارا ہو جائے گا۔
اسی طرح جب کسی بندہ کے متعلق عام طور سے لوگ یہ جان لیں کہ یہ ہماری کسی چیز میں حصہ نہیں چاہتا، نہ یہ مال کا طالب ہے، نہ کسی عہدہ اور منصب کا، تو پھر لوگوں کا اس سے محبت کرنا گویا انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔
زہد کے بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ جس شخص کے لیے دنیا کی لذتیں اور راحتیں حاصل کرنے کے مواقع ہی نہ ہوں اور اس مجبوری کی وجہ سے دنیا میں عیش نہ کرتا ہو، وہ زاہد نہیں ہے۔ زاہد وہ ہے جس کے لیے دنیا کے عیش و تنعم کے پورے مواقع میسر ہوں، مگر اس کے باوجود اس سے دل نہ لگائے اور متنعمین کی سی زندگی نہ گزارے۔
کسی شخص نے حضرت ابن مبارکؒ کو زاہد کہہ کر پکارا، انہوں نے فرمایا: زاہد تو عمر بن عبد العزیزؒ تھے، کہ خلیفہ وقت ہونے کی وجہ سے دنیا گویا ان کے قدموں میں تھی، لیکن انہوں نے اس سے حصہ نہیں لیا۔ (ماخوذ از معارف الحدیث: 76/2، 77)
دوسری صفت بہادر بننا چاہئے، بزدلی خدا تعالیٰ کو پسند نہیں۔ بزدلی سے حدیث میں پناہ مانگی گئی ہے۔ بزدلی کو دور کرنے کے لیے یہ دعا پڑھیں:
ترجمہ: ’’خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں عاجزی سے اور سستی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخل سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے دباؤ سے۔‘‘
اس دعا کو صبح و شام کم از کم ایک ایک مرتبہ پڑھنے کا اہتمام ضرور کریں۔
اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے، نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment