سیدنا ابن مسعودؓ کو رسول کریمؐ کے بدترین دشمن ابوجہل کی گردن کاٹنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ دو ننھے بچے حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ نے جب اپنی تلواروں سے ابوجہل کو گھائل کر دیا تو حضرت ابن مسعودؓ کا اس طرف سے گزر ہوا۔ حضرت ابن مسعودؓ کے پاس کارآمد تلوار نہ تھی۔ انہوں نے ابوجہل کی تلوار اٹھا لی۔ ابوجہل کی نظر ان پر پڑی تو وہ ان کے ارادے کو بھانپ گیا۔ اس نے کہا: اے حقیر بھیڑیں چرانے والے! تو نے مشکل کام کو ہاتھ ڈالا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ ہی اس کی گردن کاٹ دی اور اس کا سر اور تلوار دونوں کو لا کر رسول کریمؐ کے قدموں میں ڈال دیا۔ رسول اقدسؐ نے وہ تلوار آپؓ کو عنایت فرما دی۔
حضرت ابن مسعودؓ کا قد چھوٹا تھا، پنڈلیاں پتلی پتلی تھیں۔ ایک مرتبہ رسول اقدسؐ نے انہیں درخت پر سے کوئی چیز اتارنے کا حکم دیا، وہ درخت پر چڑھے، ان کی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر صحابہ کرامؓ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کیا ہنستے ہو۔ ابن مسعود کی ٹانگیں میزان میں احد پہاڑ سے زیادہ بھاری ہیں۔‘‘
حضرت عمرؓ نے ایک روز ابن مسعودؓ کو بیٹھا دیکھا تو فرمایا: ’’یہ علم و معرفت سے بھری چھاگل ہیں۔‘‘ سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے۔ آپؓ نے کہا نبی کریمؐ نے مجھ سے فرمایا: ذرا تو قرآن تو مجھ کو سنا۔ میں نے کہا: حضور! بھلا آپ کو کیا سناؤں، آپ پر تو قرآن اترا ہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں، سنائو۔ میں نے سورۃ النساء شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچا فکیف اذا جئنا… الخ۔ آپؐ نے فرمایا بس کرو بس۔ میں نے دیکھا تو آپؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (صحیح بخاری)
سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: (ترجمہ) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں ہے جو انہوں نے پرہیز گاری کے ساتھ کھایا۔ (پوری آیت تک)
تو رسول اقدسؐ نے مجھ سے فرمایا: مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو۔ (صحیح مسلم)
ابو الاحوصؒ کہتے ہیں کہ جس وقت سیدنا ابن مسعودؓ فوت ہوئے، میں اس وقت سیدنا ابو موسیٰؓ اور سیدنا ابو مسعود انصاریؓ کے پاس گیا، اس وقت ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا: کیا تمہارے خیال میں ابن مسعودؓ کے بعد کوئی آدمی ان جیسا ہے؟ دوسرے نے کہا: اگر تم یہ پوچھتے ہو تو ان کی یہ شان تھی کہ جب تمہیں بارگاہ رسالت میں بار یابی نہیں ہوتی تھی تو سیدنا ابن مسعودؓ کو اس وقت بھی اجازت ہوتی تھی اور جس وقت ہم غائب ہوتے تھے، سیدنا ابن مسعودؓ اس وقت بھی حاضر ہوتے تھے۔(صحیح مسلم)
حضرت عمرؓ نے 20ھ میں حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت ابن مسعودؓ کو کوفہ بھیجا اور اہل کوفہ کو لکھا: میں نے عمار بن یاسرؓ کو امیر اور ابن مسعودؓ کو معلم بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ یہ دونوں ہستیاں رسول اقدسؐ کے برگزیدہ اصحاب اور اصحاب بدر میں سے ہیں۔ تم ان دونوں کی پیروی اور اطاعت کرو اور ان کے ارشادات عالیہ کو دھیان سے سنو۔ ابن مسعودؓ کو تو میں نے اپنے نفس پر ایثار کر کے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ یوں حضور اکرمؐ کی بشارت پوری ہو گئی کہ ’’تم خود علم سکھانے والے پیارے بچے ہو‘‘ شقیق ابووائل بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اقدسؐ کے صحابہ کرامؓ کے حلقے میں بیٹھا ہوں۔ میں نے ابن مسعودؓ کی بات سے انکار کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ کسی صحابی نے آپؓ کا رد کیا۔ یعنی آپؓ فقاہت کے اس مقام پر فائز تھے کہ آپ کی رائے کے سامنے کسی صحابی کو کبھی رائے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ (طبقات ابن سعد) یہی وہ مناقب و فضائل ہیں جن کے پیش نظر امام اعظم ابوحنیفہؒ نے اپنی فقہ کے سلسلے میں حضرت ابن مسعودؓ کی پیروی کی ہے۔ 32 ہجری میں مدینہ منورہ کی سر زمین پر آپؓ کا وصال ہوا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ نے پڑھائی۔ وصال کے وقت آپؓ کی عمر مبارک 60 سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔
٭٭٭٭٭