سدھارتھ شری واستو
بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر ممبئی سمیت پوری ریاست مہاراشٹر میں 13 برس سے بند پڑے ڈانس بار اور بیئر بار بحال کردیئے گئے ہیں۔ ممبئی کی نائٹ لائف سے دلچسپی رکھنے والے لاکھوں عیاش طبع لوگوں نے ڈانس بارز کو ممبئی کی ثقافت قرار دیتے ہوئے ان کی بحالی پر اظہار مسرت کیا ہے۔ بھارتی صحافی نوین پٹنائیک نے بتایا ہے کہ عدالتی احکامات کے بعد ممبئی کے ڈانس بارز کی صاف صفائی کا کام ہنگامی پیمانے پر شروع کردیا گیا ہے۔ بارز میں نئی اور خوبرو ڈانسرز کی بھرتیاں جاری ہیں۔ منیجرز نے سائونڈ سسٹم سمیت بارز کی تزئین و آرائش کا آغاز کرادیا ہے جہاں درجنوں ڈانسرز نے پریکٹس شروع کردی ہے۔ نوین کا کہنا ہے کہ تیرہ برس سے ممبئی کے روایتی ڈانس بارز کی بندش نے اس شہر کی رنگینیوں میں کمی پیدا کردی تھی۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ مسٹر جسٹس اے کے سکری اور مسٹر جسٹس اشوک بھوشن کی جانب سے ممبئی کی رونقیں بحال کردی گئی ہیں اور ڈانس بارز پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے ممبئی کی نائٹ لائف کے رسیا لوگوں اور ڈانس بارز کی لاٹری نکل پڑی ہے۔ متعدد تماش بینوں اور منیجرز کا کہنا ہے کہ اب ان کا کام چل پڑے گا۔ ڈانس بارز کے حوالے سے ’’ضابطہ اخلاق‘‘ بھی جاری کیا گیا ہے، جس میں پولیس کو کئی اختیارات دئے گئے ہیں۔ ان میں بار کی کسی بھی وقت انسپکشن سمیت رقاصائوں سے پوچھ تاچھ کا اختیار بھی شامل ہے۔ نوین کے مطابق ماضی میں بھی ممبئی کے پولیس افسران کو ڈانس بارز میں شراب اور رقص و سرور کی محفلوں بلایا جاتا تھا جو ممبئی کا ایک ٹرینڈ ہے اور پولیس والوں کا حق بھی۔ ممبئی میں کام کرنے والی ’’ڈانس بار گرلز ایسوسی ایشن‘‘ کی عہدیداروں نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ ڈانس بار کھولنے کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ لیکن پابندیوں کو کم کیا جائے۔ ڈانسرز پر نوٹ نچھاور نہ کرنے کا حکم غلط ہے کیونکہ نوٹ نچھاور کرنے سے ڈانسرز کے کام میں نکھار آتا ہے۔ ایسوسی ایشن کی صدر ورشا کھالے کا کہنا تھا کہ ڈانس بارز ممبئی والوں کی ثقافت بن چکے تھے۔ پابندیوں نے لاکھوں ڈانسرز کی کمائی بند کرکے انہیں بھوکا مرنے پر مجبور کردیا تھا جس سے جسم فروشی اور پرائیوٹ ڈانس پارٹیوں کا رجحان بڑھ گیا تھا۔ لیکن اب امید کی جاتی ہے کہ ممبئی کی نائٹ لائف اور چکاچوند میں اضافہ ہوگا۔2005ء میں ایک ڈانس بار کے منیجر رہنے والے اشوک گائیکواڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بہت دیر سے اچھا فیصلہ دیا ہے، جس ملک میں ہم جنس پرستی جرم نہیں ہے تو اس ملک میں ڈانس بارز پر پابندی لگانا بھی اچھا نہیں تھا۔ ماضی میں ممبئی کے سب ہی ڈانس بارز میں نچھاور کئے جانے والے نوٹوں کا اصول تھا کہ اس میں سے 25 پرسنٹ رقم ڈانسر کا حق اور باقی ڈانس بار کے منیجر یا مالک کا حق ہوتا تھا۔ لیکن اب کورٹ کا آرڈر ہے کہ نوٹ نچھاور نہیں کیے جائیں گے۔ نوین پٹنائیک کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات اور ضابطہ اخلاق پر سبھی ڈانس بار مالکان کو شدید تحفظات ہیں لیکن مہاراشٹر پولیس کے افسران نے ان کی ڈھارس بندھائی ہے کہ ڈانس بارز کا مطلب ڈانس بار ہے یہ مندر نہیں ہے جہاں اخلاقیات کا درس دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ممبئی سمیت مہاراشٹر کے تمام ڈانس بارز کو13 برس کے بعد بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن تمام ڈانس بارز کوعدالتی حکم نامہ میں پابندکیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی’’ بد اخلاقی‘‘ کا مظاہرہ ہرگز نہیں کریں گے۔ ممبئی (پوری ریاست مہاراشٹر) کے ڈانس بارز میں ناچنے والی تمام ڈانسرز جسم فروشی نہیں کرسکیں گی اور نا ہی وہ مختصر لباس میں ڈانس کریں گی۔ جبکہ کوئی بھی تماش بین ڈانسرز پر نوٹ نہیں نچھاور کرسکے گا۔ عدالتی احکامات پر تمام ڈانس بارز کی انتظامیہ اپنے ڈانس بار میں سی سی ٹی وی کیمرے لگوانے اور ان کو فعال رکھنے کی پابند ہوں گی اور ان سی سی ٹی وی کیمروں کی جھلک ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ مقامی پولیس اسٹیشن میں بھی دکھائی جائے گی۔ کسی بھی غیر قانونی حرکت کی صورت میں ممبئی پولیس کا متعلقہ اسٹیشن اس ڈانس بار پر چھاپا مار کر ڈانسروں کو گرفتار کرلے گا۔ عدالتی احکامات میں تمام ڈانس بارز کی انتظامیہ کو پابند کیا گیا ہے کہ کسی بھی بری شہرت کے حامل فرد کو ڈانس بار کا منیجر نہیں بنایا جائے گا۔ سپریم کورٹ کی ہدایات میں تمام ڈانس بارز کو پابند کیا گیا ہے کہ ان کا ڈانس بار کسی بھی اسکول یا مندر سے ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہونا چاہئے، لیکن بیشتر ڈانس بارز نے اس پابندی کو رد کردیا ہے اور اس کو احمقانہ قرار دیا ہے۔ ممبئی کے معروف چاندنی ڈانس بار کے سابق منیجر کمل کشواہا نے بتایا ہے کہ ممبئی جیسے شہر میں مذہبی مقام یا اسکول سے ایک کلومیٹر کی دوری کی شرط ناقابل عمل ہے۔ یہاں تو ہر گلی کے نکڑ پر ایک اسکول یا مندر بنا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ کیونکہ ڈانس بارز کا کام شام 6 بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک چلے گا اور اس دوران کوئی پوجا پاٹھ یا اسکول میں درسی کارروائی نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ تماش بین بالغ ہونے چاہئیں اور یہاں اسکول کا یا کالج کے طلبا وطالبات نہیں آنے چاہئیں۔جبکہ ڈانس بار میں بار روم یا شراب نوشی کا کمرہ ڈانسر کے ناچنے والے فلور سے بھی الگ ہونا چاہئے۔
٭٭٭٭٭