پشاور بس ریپڈٹرانزٹ پروجیکٹ کی رواں برس تکمیل ممکن نہیں

امت رپورٹ
پشاوربس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی رواں برس تکمیل کا امکان نہیں ہے۔ خیبر پختون حکومت کی جانب سے اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کی کئی مرتبہ تاریخیں دی گئیں لیکن مقررہ مدت میں کام پورا نہیں کیا جاسکا۔ آخری مرتبہ کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ جون 2019ء میں مکمل کرلیا جائے گا۔ تاہم یہ ڈیڈ لائن بھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ ذرائع کے مطابق پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کے نقشہ میں بار بار تبدیلی کی گئی ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے ڈیزائن میں دس مرتبہ تبدیلی کی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے بارے میں پہلے بتایا گیا تھا کہ اس کی لاگت 50 ارب روپے تک ہوگی، لیکن بعد میں اس کی لاگت بڑھ کر 70 ارب روپے تک پہنچ گئی، جو کہ 30 فیصد اضافہ تھا۔ تاہم اب کہا جارہا ہے کہ اس کی لاگت 70 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ابتدائی تخمینوں سے اس کی لاگت سو فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
صوبہ خیبر پختون کی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ وہ رواں برس جون میں پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے گی۔ تاہم کام کی رفتار کو دیکھتے ہوئے اس مدت میں تکمیل کا امکان کم ہے۔ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ لاہور، راولپنڈی، ملتان اور دیگر شہروں میں نواز لیگ کی گزشتہ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی میٹرو بس سروس کی طرز کا منصوبہ ہے۔ جس کی بنیاد تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے دور میں رکھی گئی تھی۔ اس منصوبے کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ پروجیکٹ الیکشن سے قبل مکمل ہوجائے گا۔ تاہم یہ منصوبہ اسی وقت تنازعات کا شکار ہوگیا تھا، جب اس منصوبے سے جڑے کچھ اہم عہدیداروں نے استعفے دے دیئے تھے۔ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تکمیل کے لئے تحریک انصاف کی وفاقی اور خیبر پختون حکومت کئی تاریخیں دی چکی ہے۔ اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ مارچ میں مکمل ہوجائے گا۔ اب کہا جارہا ہے کہ اس منصوبے کو جون میں مکمل کرلیا جائے گا۔ تاہم مقامی ذرائع کے مطابق اب یہ منصوبہ جون میں بھی مکمل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ حکومتی ذرائع تو دعویٰ کرتے ہیں کہ منصوبے پر 80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ لیکن مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس کا ابھی تک 50 فیصد کام بھی مکمل نہییں ہوا ہے۔ صوبائی حکومت تاحال اس پروجیکٹ کے حوالے سے گو مگوں کا شکار ہے۔ تقریباً دس مرتبہ منصوبے کا ڈیزائن تبدیل ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں بھی منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کیا گیا ہے۔ اسی طرح منصوبے میں توڑ پھوڑ بھی جاری ہے۔ واضح رہے کہ اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 50 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں لاہور اور اسلام آباد کے میٹرو منصوبے 30 اور 44 ارب روپے سے تیار ہوئے تھے۔ جبکہ پشاور کے بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ کی لاگت میں 20 ارب روپے اضافے کے باوجود اس کی تکمیل میں مزید تاخیر کی وجہ سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کی لاگت سو فیصد بڑھ جائے گئی اور یہ منصوبہ ریکارڈ تاخیر مدت اور ریکارڈ بجٹ سے مکمل ہوگا۔
واضح رہے کہ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کے ایک سب اسسٹنٹ ریذیڈنٹ انجینئر محمد گوہر نے منصوبے میں کرپشن کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں الزام لگایا تھا کہ اس پروجیکت میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی جارہی ہے ۔ جبکہ یہ منصوبے بین الاقوامی معیار تو کیا، ملکی معیار کا بھی نہیں ہے، اس میں استعمال کیا جانے والا میٹریل ناقص ہے۔ ذرائع کے مطابق محمد گوہر نے کرپشن سے متعلق تمام دستاویزی ثبوت بھی اپنے خط کے ساتھ منسلک کئے تھے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پروجیکٹ پر اخراجات مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق مختلف مقامات پر تعمیر کی گئی دیواروں کا پلستر اتر رہا ہے۔ بعض جگہوں پر سریا چوری ہوا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس منصوبے کا کم از کم دو کروڑ روپے کا سریا چوری ہوا ہے، جو کہ پولیس نے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ میں جمیعت علمائے اسلام ’’ف‘‘ کے رہنما مولانا امان اللہ کی جانب سے دائر کردہ رٹ پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ اس میگا پروجیکٹ کا ٹھیکہ بلیک لسٹ کمپنی کو دیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر اضلاع کے منصوبوں کے پیسے بھی اس منصوبے میں لگائے گئے ہیں۔ اس رٹ پٹیشن پر پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو تحقیقات کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ نیب نے منصوبے کی تحقیقات کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔ دوسری جانب صوبائی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ منصوبے کو فنڈ فراہم کرنے والے ادارے ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے متعدد دوروں کے بعد منصوبے کو صاف و شفاف قرار دیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment