امت رپورٹ
کراچی کے قدیم تجارتی مرکز لی مارکیٹ کے دکانداروں نے میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے دکانیں خالی کرنے کیلئے دی گئی 6 دن کی آخری مہلت کو مسترد کردیا۔ ان کا متبادل جگہ دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ کے ایم سی کی ڈیڈ لائن 22 جنوری تک ہے۔ تاہم وہ ممکنہ کاروائی سے دو روز قبل مارکیٹ بند کر کے اس کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع کردیں گے اور بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اگر میئر کی جانب سے طاقت کا استعمال کیا گیا، تو سامان کے ساتھ خود کو بھی آگ لگالیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاملہ برٹش دور کے گھڑیالی ٹاور کی بحالی کا نہیں، بلکہ میئر کراچی انتقامی کارروائی کررہے ہیں کہ متحدہ کے عروج کے دور میں بھی یہاں سے نہ ووٹ اور نہ ہی بھتہ ملا۔ اب میئر کراچی کو سپریم کورٹ کے احکامات کی آڑ میں موقع ملا ہے، تاہم تاجر انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کیونکہ لی مارکیٹ کا میدان مار کر لیاری کی کھڈا مارکیٹ سمیت دیگر مارکیٹوں کا نمبر لگ جائے گا۔
لی مارکیٹ کے تاجر رہنما شعیب بلوچ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی نے ہمیں آسرا دیا ہے کہ ٹھٹھہ بس اڈے کی زمین پر تین منزلہ عمارت بنا کر لی مارکیٹ کے دکانداروں کو متبادل جگہ دیں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ معاملہ لی مارکیٹ کے قدیم ٹاور کا نہیں ہے، میئر کراچی ان کے کاروبار کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ تاجر رہنما محمد شاہ کا کہنا تھا کہ ’’ایمپریس مارکیٹ کے بعد لی مارکیٹ میں پختونوں کا کاروبار کوتباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لگتا ہے کہ اس کے بعد میئر کراچی پختون آبادیوں کے گھر گرائیں گے۔ اس لئے ہم لی مارکیٹ کا تحفظ کریں گے۔ کوئی تاجر دکان خالی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کاروائی سے قبل متبادل جگہ دو۔ ورنہ جو جانی نقصان ہوگا، میئر کراچی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ تاجر کہاں جائیں گے؟ تاجر کہتے ہیں کہ سامان کے ساتھ خود کو آگ لگالیں گے اس لئے طاقت کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جائے۔‘‘ انور خان نامی دکان دار کا کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی ایمپریس مارکیٹ کے بعد لی مارکیٹ اور پھر شہر بھر میں پختون برادری کے کاروبار کو تباہ کررہے ہیں۔ اب خاموش رہے تو آگے جاکر ہمارے گھر گرانا شروع کردیں گے۔ میئر کراچی سانحہ 12 مئی سمیت دیگر واقعات میں ملوث ہیں۔ اس کے باوجود ان کو من مانی کرنے کی اجازت ہے۔ یہاں کے دکاندار آخری وقت تک مزاحمت کریں گے۔ کیونکہ کوئٹہ، پشاور اور دیگر شہروں کے لوگ بے روزگار ہوکر کدھر جائیں گے، اس لئے متبادل جگہ مانگ رہے ہیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ میئر کراچی 2008ء سے شروع ہونے والے لسانی فساد کو دوبارہ شروع کرانا چاہتے ہیں۔‘‘
تاجر رہنمائوں کا کہنا تھا کہ لی مارکیٹ کے اندرونی حصے اور اطراف میں 10 مارکیٹیں قائم ہیں جن میں دودھ منڈی، سبزی، گوشت، مچھلی، ٹوپی، چپل، کپڑے، چائے کی پتی، رضائی گدے، پھول والے اور پرچون کی مارکٹیں ہیں۔ کے ایم سی 702 دکانوں کو نوٹس دے چکی ہے، جبکہ دکانیں 961 سے زائد ہیں۔ ٹھیلے پتھارے والے ملا کر 1200 سے زائد افراد بنتے ہیں جو بے روزگار ہوںگے۔ ان کا کہنا تھا کہ میئرکراچی سے ملاقات ہوئی ہے وہ بتا رہے تھے کہ لی مارکیٹ کے سامنے ٹھٹھہ بس اسٹاپ کا خالی پلاٹ ہے۔ اس جگہ 3 منزلہ پلازہ تعمیر کریں گے اور لی مارکیٹ کے دکانداروں کو دکانیں دیں گے۔ یہ پلاٹ کے ایم سی کا ہے۔ تاجر رہنما شعیب بلوچ کا کہنا تھا کہ1941ء میں لی مارکیٹ کے اندر 24 دکانیں تھیں جو اب رضائی گدے والوں کے پاس ہیں۔ اس کے بعد دیگر دکانیں 1961ء میں بنی ہین یہاں پر ماشااللہ مارکیٹ کی 200 دکانیں تو لی مارکیت کی گھڑیال ٹاور سے اور نالے سے دور ہیں۔ ان کو بھی گرانے کا کہا گیا ہے اور تاجروں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ مارکیٹ میںکشیدگی ہے کہ لی مارکیٹ کے بعد کھڈا مارکیٹ یا لیاری کی دیگر مارکیٹوں کا نمبر لگ سکتا ہے۔ تاجر رہنما جمیل بلوچ کا کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی اس آپریشن کو کرنے سے قبل متبادل جگہ دلوادیں۔ ورنہ خراب صورتحال کے ذمہ دار میئر کراچی خود ہوں گے۔‘‘ صمد بلوچ کاکہنا تھا کہ نئے چیف جسٹس پاکستان اس مارکیٹ کے آپریشن کے حوالے سے ازخود نوٹس لیں کہ برٹش دور کے ایک گھڑیالی ٹاور کیلئے 1500 دکانیں گرائی جا رہی ہیں۔ اس سے 5 ہزار افراد بے روزگار ہوں گے۔ سبزی فروش جاوید خان کا کہنا تھا کہ یہ سبزی کاپتھارا ہی ان کا واحد اثاثہ ہے۔ روزانہ 6 سے سات سو روپے ملتے ہیں اگر جگہ گرادی گئی تو ان کے بچوں کا کیا ہوگا۔ سبزی فروش شیر احمد کا کہنا تھا کہ میئر کراچی متبادل جگہ دیں گے تو اس میں کئی ماہ لگیں گے، تب تک بچوں کو کیا فاقے کرائیں؟ ہاشم نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ میئر کراچی انتقامی کاروائی کررہے ہیں۔ دکاندار عتیق خان کا کہنا تھا کہ اب دکاندار پہرہ دے رہے ہیں کہ میئر کراچی پر اعتبار نہیں ہے کہ 6 دن کی ڈیڈ لائن سے قبل ہی آپریشن کرادیں۔ سیف اللہ خان کا کہنا تھا کہ جب تک پہلے والوں کو متبادل جگہ نہیں دے جاتی، آپریشن روکا جائے۔ متبادل جگہ دے کر بے شک آپریشن کریں۔ سبزی فروش جہانگیر کا کہنا تھا کہ اس کی دکان والد نے لی تھی۔1961ء سے یہی کاروبار کررہے ہیں اور ہر ماہ کرایہ کے ایم سی کو ادا کرتے ہیں۔ دکاندار نور محمد کا کہنا تھا کہ اس عمر میں مجبور ہوکر دکانداری کررہے ہیں اتنا مجبور نہ کیا جائے کہ دکان کے اندر خود کو جلا کر ہلاک کرلیں۔ حفیظ اللہ کا کہنا تھا کہ میئر کراچی ایک گھڑیالی ٹاور کیلئے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار نہ کریں۔ مچھلی فروش اللہ بچایا کاکہنا تھا کہ اگر متبادل جگہ پہلے دی جائے تو خود دکان خالی کردیں گے ورنہ ان کے اوپر مشینری چلا لی جائے۔ دکاندار فیصل خان کا کہنا تھا کہ اگر گھڑیالی ٹاور کو نمایاں کرنا ہے تو صرف ادھر کی دکانیں گرائی جائیں، دور دور تک اطراف کی ساری مارکٹیں مت گرائیں۔
واضح رہے کہ لی مارکیٹ اور اطراف میں مجموعی طور پر 1200 سے زائد دکانیں ہیں جو چھوٹی بڑی 10مارکیٹوں میں موجود ہیں۔ یہاں شہر کی دیگر مارکیٹوں کی نسبت ارزاں نرخوں پر سامان میسر ہوتا ہے۔ خصوصاً بلوچ کمیونیٹی زیادہ تر یہیں سے سامان بلوچستان لے جاتی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر شہر میں موجود اصل انکروچمنٹ کو گرانے کے بجائے ملکہ برطانیہ کی باقیات یا نشانیوں کے قریب پائی جانے والی عمارتوں کو ختم کرکے ان کو واپس اصل حالت میں لانے کے لئے آپریشن کررہے ہیں۔ تاہم خود کے ایم سی کی قائم کردہ مارکیٹوں کو گرانے کی قربانی بھی دے رہے ہیں جبکہ اس سب کے درمیان غریب محنت کشوں سے ان کا کاروبار چھینا جارہا ہے۔ اسی طرح اب لی مارکیٹ میں بھی آپریشن کی تیاری کی جارہی ہے۔
اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی ضلع جنوبی کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری اور لی مارکیٹ تاجر اتحاد کے جنرل سیکریٹری نور محمد آفریدی کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ایک روز قبل 6 روز کی مہلت کا نوٹس ملا ہے۔ اس سے قبل 3 اور 4 جنوری کو بھی نوٹس دیئے گئے تھے۔ جس کے بعد ہم نے احتجاج بھی کیا اور مذاکرات بھی ہوئے تاہم پھر آل تاجر اتحاد سندھ کے چیئرمین جمیل پراچہ نے احتجاج کو ختم کرایا اور میئر سے ملاقات کرانے کا بھی کہا۔ ملاقات میں میئر کی ٹیم نے نقشہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ قربانی آپ دیں کچھ ہم تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ تاہم وسیم اختر نے صاف صاف کہہ دیا کہ جن جن کو نوٹس ملا ہے ان کے خلاف ہر صورت میں آپریشن کیا جائے گا۔ ہم نے4 دسمبر کو ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی، جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہم کسی بھی ایسی سرگرمی میں نہیں آتے مگر اس کے باوجود بھی ہمیں نوٹس دیئے جارہے ہیں۔
ایک تاجر سعید خان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری دکانیں نالے پر ہیں اور نہ ہی ہم انکروچر ہیں۔ ہم مسلسل رینٹ بھی دے رہے ہیں مگر پھر بھی میئر وسیم اختر ہماری بات کو سننے کو تیار نہیں ہیں۔
لی مارکیٹ کی کھجور مارکیٹ کے قریب واقع جامعہ مسجد سیدنا علی معاویہ کے خطیب مفتی نسیم ثاقب کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی چاہتے ہیں کہ لی مارکیٹ کو ختم کرکے برطانوی دور کی نشانیوں کو واپس سامنے لائیں۔ لیاری کی لی مارکیٹ، حاکم علی علوی روڈ پر قائم ایڈلجی ڈنشا ڈسپنسری اور ٹرینٹی چرچ وغیرہ کے اطراف کی مارکیٹوں کو اگلے مرحلے میں گرایا جاسکتا ہے۔ تاکہ نئی نسل کو دور ِ غلامی کی یادگاریں دکھائی جائیں۔‘‘
مفتی محمد علی میمن کا کہنا تھا کہ لی مارکیٹ میں آپریشن سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ کھجور مارکیٹ کے تاجر سعد الدین اور قدرت اللہ کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان سے کھجوریں لاتے ہیں۔ یہاں سے ہٹایا گیا تو اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی کاروبار نہیں ہے۔
اس حوالے سے لیاری سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی شکور شاد اور پی ایس 107سے منتخب ہونے والے ممبر صوبائی اسمبلی سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔
٭٭٭٭٭