تابعین کے ایمان افروز واقعات

قاضی شریحؒ نے حضرت علیؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا: امیر المؤمنین آپ کے سچا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ زرہ بلاشبہ آپ کی ہے، لیکن چوں کہ اس وقت مقدمہ عدالت میں ہے، اسے اپنی ملکیت ثابت کرنے کیلئے آپ کو دو گواہ پیش کرنا ہوں گے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: ہاں؟میرا غلام قنبر اور میرا بیٹا حسنؓ میرے حق میں گواہی دیں گے۔
قاضی شریحؒ نے کہا:’’غلام کی گواہی آقا کے حق میں اور بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قابل قبول نہیں۔‘‘
حضرت علی ؓ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: ایک جنتی آدمی کی شہادت قبول نہیں… کیا آپ نے رسول اقدسؐ کا یہ فرمان نہیں سنا؟
ترجمہ: ’’حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
قاضی شریحؒ نے کہا: امیر المؤمنین یہ درست ہے، لیکن میں باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو جائز نہیں سمجھتا۔
حضرت علیؓ نے ذمی کی طرف دیکھا اور فرمایا: یہ زرہ اپنے قبضے میں ہی رکھئے، کیوں کہ میرے پاس ان کے سوا کوئی گواہ نہیں۔
یہ صورت حال دیکھ کر ذمی نے کہا: امیرالمؤمنین میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ زرہ آپ ہی کی ہے۔
پھر وہ تعجب سے کہنے لگا: اے خدا! اسلام میں انصاف کا معیار کتنا اونچا ہے، آج امیر المؤمنین اپنے ماتحت قاضی سے فیصلہ کرانے کیلئے پیش ہوا اور قاضی نے سماعت کے بعد فیصلہ امیر المؤمنین کے خلاف میرے حق میں دے دیا۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ دین جو اس قسم کے فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے وہ برحق ہے اور میں آج اس سے متاثر ہوکر عدالت کے سامنے سچے دل سے اقرار کرتا ہوں۔ (اس کے بعد اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا)
خدا کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور بلاشبہ محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
پھر اس عدالت میں اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: جناب قاضی صاحب! میں صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ یہ زرہ امیرالمؤمنین کی ہے۔ میں ایک رات اس لشکر کے پیچھے پیچھے جارہا تھا جو صفین کی طرف رواں تھا، یہ زرہ ان کے خاکی رنگ کے اونٹ سے گری تھی، جسے میں نے اٹھایا تھا۔
حضرت علیؓ نے اس کا بیان سن کر ارشاد فرمایا: چوں کہ اب تو مسلمان ہوگیا ہے لہٰذا یہ زرہ میں نے تجھے بطور تحفہ دی اور اس کے ساتھ ہی یہ عمدہ گھوڑی بھی تجھے بطور تحفہ پیش کرتا ہوں۔
یہ واقعہ پیش آئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ شخص جنگ نہروان کے دن حضرت علیؓ کی قیادت میں خوارج کے ساتھ لڑائی کرتا ہوا شہید ہوگیا۔
دوسرا فیصلہ:
قاضی شریحؒ کو حق تعالیٰ نے تقویٰ اور عدل و انصاف کی دولت عطا فرمائی تھی، اس کے ذریعے انہوں نے جو فیصلے صادر فرمائے تھے، ان عجیب فیصلوں میں سے یہ بھی ہے کہ: ایک دن ان کے بیٹے نے کہا: اے ابا جان! میرا فلاں لوگوں کے ساتھ کچھ جھگڑا ہو گیا ہے، آپ مجھے بتادیں، اگر اس میں میری غلطی ہے تو جتنے پیسے وہ مجھے دیں، میں اس پر راضی ہو جاؤں اور اگر ان کی غلطی ہے تو ان کو عدالت میں لے آؤں، تاکہ ان کو بھی ان کی غلطی کا احساس ہو جائے۔
آپ نے جھگڑے کی تفصیل سننے کے بعد فرمایا: ’’ہاں! ان کو عدالت میں لے آؤ۔‘‘ وہ خوشی خوشی ان کے پاس گیا اور انہیں عدالت میں چلنے کے لیے کہا، وہ عدالت میں پیشی کے لیے تیار ہوگئے۔ جب قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے تو انہوں نے مقدمہ سننے کے بعد اپنے بیٹے کے خلاف فیصلہ سنادیا۔ وہ لوگ خوش وخرم واپس لوٹے اور بیٹا افسردہ وشرمندہ منہ لٹکائے ہوئے عدالت سے باہر آیا۔ باپ کا فیصلہ بیٹے کے خلاف، یہ ہے عدل وانصاف کی روشن مثال۔
جب قاضی شریحؒ اور ان کا بیٹا گھر پہنچے بیٹے نے باپ سے کہا: ابا جان! آپ نے مجھے شرمندہ کردیا۔ اگر میں نے آپ سے مشورہ نہ لیا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی، افسوس یہ ہے کہ میں نے آپ سے مشورہ لے کر عدالت کا رخ کیا اور آپ نے میرے ہی خلاف فیصلہ صادر کردیا۔ لوگ میرے متعلق کیا سوچتے ہوں گے۔ قاضی شریحؒ نے کہا: بیٹا! دنیا بھر کے لوگوں سے تُو مجھے زیادہ محبوب ہے، لیکن یاد رکھو! خدا کی محبت میرے دل میں تیرے پیار پر غالب ہے۔ مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر میں تجھے مشورے کے وقت بتا دیتا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا، تو تو ان سے صلح کر لیتا اور ہوسکتا تھا کہ وہ صلح میں نقصان اٹھاتے، ان کو زیادہ پیسے ادا کرنے پڑتے اور اپنے حق سے محروم رہ جاتے۔ اس لیے میں نے تجھے کہا کہ انہیں عدالت میں لے آؤ، تاکہ عدل وانصاف سے ان کا حق انہیں پورا پورا مل جائے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment