چوری میں ہاتھ کاٹنے کا حکم اسلام نے کیوں دیا، اس میں کیا حکمت ہے اور دوسرے جرائم میں اعضاء کاٹنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ ہر مجرم کا اگر وہ عضو کاٹ دیا جاتا، جس سے گناہ سرزدہوتا ہے تو انسان تباہ ہو جاتا اور بجائے اصلاح کے بربادی لازم آتی، مثلاً اگر بد نظر کی آنکھیں نکالی جاتیں، تو وہ بقیہ زندگی اندھا بن کر دردر کی ٹھوکریں کھاتا، اسی طرح بُری بات سننے والے کے کان کاٹ ڈالے جاتے یا اس کی قوت شنوائی ختم کردی جاتی، تو وہ ہمیشہ کیلئے آلہ سماعت سے محروم ہو جاتا اور اچھی طرح بات کے سننے سے محروم رہ جاتا۔ بدزبانی کرنے والے کی زبان کاٹی جاتی تو وہ ہمیشہ کیلئے قوت گویائی سے محروم ہوجاتا۔ اسی طرح زنا کار کے اعضا کو کاٹ دیا جاتا تو وہ نسل انسانی کی افزائش سے محروم ہو جاتا اور پھر اس طرح یہ سزا جرم سے بھی بڑھ جاتی، حالانکہ مقصد مرض کو ختم کرنا ہے نہ کہ مریض کو یعنی جرائم کا ختم کرنا اور انسانوں کی اصلاح مقصود ہے۔ یایوں کہیے کہ جو قوتیں غلط رُخ پر لگادی گئی ہیں، انہیں وہاں سے ہٹا کر صحیح رُخ پر لگا دینا ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا کہ انسانوں میں جتنی قوتیں حق تعالیٰ نے ودیعت کر رکھی ہیں، انہیں صحیح مصرف میں خرچ کریں اور انسان میں اعتدال پیدا کریں۔ یہی حال حدودکا ہے یعنی بندوں کو ظلم وجور سے روک کر صحیح راہ پر ڈال دینا اور ایسی سزا دینا جس سے نفسیاتی طور پر دوسرے انسان متاثر ہوں اور ان کو اس طرح کے بُرے کاموں کی جرات و ہمت نہ ہونے پائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہر جرم میں قطع اعضاء سے یہ منشاء پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آخر چور کا ہاتھ کیوں کاٹا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چور چھپ چھپا کر چوری کرتا ہے اور پھر بھاگتا ہے، گویا اس کی آرزو یہ رہتی ہے کہ دوسروں کا مال بھی لے کر بھاگے اور کسی پر اس کا راز ظاہر بھی ہونے نہ پائے۔ خدا جل شانہ نے اس وجہ سے اس کی سزا ایسی تجویز فرمائی کہ اس کے چھپانے کے جذبات کا ردعمل سامنے آئے اور ساری دنیا کو معلوم ہو جائے کہ یہ شخص چور تھا۔ دوسرے بھاگنے میں اس کو پوری قوت نہ ہو۔ اسی وجہ سے دوسری مرتبہ چوری پر پاؤں کاٹنے کا حکم ہے تاکہ بھاگ نہ سکے۔ لیکن چونکہ اسے بیکار محض بنانا نہیں ہے، اس لیے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹا جاتا ہے، پھر ہاتھ بغل سے نہیں کاٹا جاتا بلکہ صرف کلائی کاٹی جاتی ہے اور پاؤں رانوں سے نہیں کاٹا جاتا، بلکہ صرف ٹخنے سے، تیسری مرتبہ چوری پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، اس کا کوئی اور عضو نہیں کاٹا جاتا۔
٭٭٭٭٭