تابعین کے ایمان افروزواقعات

قسط نمبر43
تیسرا فیصلہ:
ایک مرتبہ قاضی شریحؒ کے لڑکے نے ایک شخص کی ضمانت دی کہ یہ شخص اتنے دنوں بعد عدالت میں حاضر نہ ہوا تو میں ضامن ہوں، جو منظور کرلی گئی۔
وہ شخص بر وقت عدالت میں حاضر ہونے کے بجائے بھاگ گیا۔ قاضی شریحؒ نے اپنے لڑکے کو اس بھاگے ہوئے شخص کے بدلے میں گرفتار کر لیا اور پھر جیل میں ہر روز خود کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ دیکھئے! یہ ہے خدا کی محبت، جب انسان کے دل میں خدا کی محبت بیٹھ جاتی ہے تو پھر وہ کسی کی پروا نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیں گے؟
کبھی کبھی کسی گواہی میں جب قاضی شریحؒ کو شک وشبہ پیدا ہوتا اور گواہی دینے والے عدالت کے کٹہرے میں آکھڑے ہوتے تو آپ انہیں جھوٹی گواہی سے باز رکھنے کے لیے یہ ارشاد فرماتیِِ:
’’گواہی دینے والو! میری بات کو غور سے سنو! خدا تمہیں ہدایت دے (اگر جھوٹی گواہی دی تو) آج اس شخص کے خلاف فیصلہ دینے کا باعث تم بنو گے۔ میں تو تمہاری دی ہوئی گواہی کی وجہ سے جہنم کی آگ سے بچ جاؤںگا، تمہیں بھی جہنم کی آگ سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے، اب بھی تمہارے اختیار میں ہے کہ گواہی نہ دو اور چلے جاؤ۔‘‘
اگر وہ گواہی دینے پر اصرار کرتے تو آپؒ اس شخص کی طرف متوجہ ہوتے، جس کے حق میں یہ گواہی دینا چاہتے۔ اسے مخاطب ہو کر فرماتے: ’’خوب اچھی طرح جان لو! میں تہمارے حق میں فیصلہ ان کی گواہی کی بنا پر دے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ظالم تو تم ہی ہو، لیکن صرف گمان و اندازہ کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، میں تو گواہوں کی شہادت پر ہی فیصلہ دے سکتا ہوں۔ لیکن میرا یہ فیصلہ اس چیز کو تمہارے لیے حلال نہیں کر سکتا جسے حق تعالیٰ نے تمہارے لیے حرام کردیا ہے۔‘‘
قاضی شریحؒ عدالت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے فیصلہ صادر کرتے وقت یہ کلمات بار بار دہرایا کرتے تھے۔ ’’ظالم کل ضرور جان لے گا کہ نقصان اٹھانے والا کون ہے؟‘‘
ویسے بھی نفسیاتی طور پر ظالم سزا کا منتظر رہتا ہے اور مظلوم عدل وانصاف کا انتظار کرتا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ نے انسان کو ضمیر ایسا دیا ہے کہ جو شخص ظلم کر کے کسی کا مال چھین لیتا ہے یا کسی قسم کی تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ بعد میں ڈرتا رہتا ہے اس پر خوف مسلط ہو جاتا ہے اور مظلوم کے دل میں حق تعالیٰ سے یہ امید ہوتی ہے کہ مجھے میرا حق مل جائے گا، یا جس نے مجھے ستایا ہے دنیا میں ورنہ آخرت میں وہ سزا ضرور بھگتے گا۔
پھر قاضی شریحؒ فرماتے: ’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں: جو شخص خدا کے لیے کوئی حق چھوڑ دے گا یا کوئی چیز اس کو راضی کرنے کے لیے چھوڑ دے گا۔ تو اسے اس چیز کے اپنے ہاتھ سے نکل جانے کا غم نہیں ہوگا اور حق تعالیٰ اس سے بہتر اس کو بدلہ عطا فرمادیں گے۔‘‘
قاضی شریحؒ کی انفرادی نصیحتیں:
قاضی شریحؒ جب کسی بات کی تبلیغ فرماتے تو ان پر نصیحت و شفقت کا پہلو غالب رہتا، اجتماعی نصیحتوں کے ساتھ ساتھ انفرادی نصیحتیں بھی کیا کرتے تھے۔ ایک شخص کا بیان ہے:
’’قاضی شریحؒ نے مجھے دیکھا کہ میں اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کا شکایت اپنے ایک دوست کے پاس کر رہا تھا۔ آپ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور فرمایا:
اے میرے بھائی کے بیٹے! خدا کے سوا کسی کے پاس شکوہ شکایت کرنے سے بچو، جس کے پاس تم شکوہ کرو گے وہ تمہارا دوست ہوگا یا دشمن، دوست یہ شکوہ سن کر غمگین ہوگا اور دشمن خوش ہوگا ( اور مصیبتوں بلاؤں کو نہ دوست دور کر سکتا ہے، نہ دشمن، پھر ان کو شکایت کرنے کا کیا فائدہ)؟
پھر آپؒ نے اپنی ایک آنکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میری اس آنکھ کی طرف دیکھو! خدا کی قسم میں نے گزشتہ پندرہ برس سے اس آنکھ سے نہ کوئی شخص دیکھا اور نہ راستہ ، لیکن میں نے کسی کو ( شکایت کرنے کی غرض سے بھی) بتایا تک نہیں، صرف آج تجھے محض سمجھانے کے لیے بتا رہا ہوں۔ بار بار ہر ایک سے پریشانیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ کیا تو نے خدا کے برگزیدہ بندے حضرت یعقوبؑ کا یہ جملہ نہیں سنا: ( ترجمہ) میں اپنا شکوہ وغم خدا کے حضور پیش کرتا ہوں۔ اور یہ بھی فرمایا: ہر مصیبت کے وقت اپنے غم ورنج کا شکوہ خدا ہی کے دربار میں پیش کیا کرو۔ وہی سوالیوں کی عزت رکھنے والا، بے کسوں کی التجائیں سننے والا اور دعائیں مانگنے والوں کے قریب تر ہے۔‘‘ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment