ایک مرتبہ حضرت شیخ ابوحمزہؒ مجلس وعظ میں ’’قرب‘‘ کے موضوع پر تقریر کررہے تھے۔ اتفاق سے اس مجلس میں حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ بھی موجود تھے۔ جب حضرت شیخ ابوحمزہؒ کی تقریر ختم ہوگئی تو حضرت شیخ نوریؒ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’جس قرب میں ہم لوگ ہیں، دراصل وہ بعد در بعد (دوری در دوری) ہے۔‘‘
حضرت شیخ ابوحمزہؒ نے فرمایا ’’شیخ! پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‘‘
حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ نے فرمایا ’’جب بندہ خدا کو پہچان لے اور اس میں وعظ گوئی کی صلاحیت موجود ہو تو اسے وعظ کہنا چاہئے۔ اگر خدا کو پہچانے بغیر کوئی وعظ کہتا ہے تو اس کی تقریروں کی بلا (مصیبت) بندوں اور شہروں میں پھیل جاتی ہے۔‘‘
پھر اسی مجلس میں حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ نے فرمایا ’’وجد کی حقیقت کا اظہار اس لئے ممنوع قرار دیا گیا ہے کہ وجد ایک ایسا شعلہ ہے، جو سر کے اندر بھڑکتا ہے اور شوق کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
ایک اور موقع پر حضرت شیخ نوریؒ نے فرمایا ’’سنت کے اتباع کے بغیر اسلام کا راستہ نہیں ملتا۔ صوفی کی تعریف یہ ہے کہ نہ تو وہ کسی کی قید میں ہو اور نہ کوئی اس کی قید میں۔‘‘
ایک اور موقع پر صوفیاء کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ’’صوفیاء کی روحیں غلاظت بشری سے آزاد، کدورت نفسانی سے صاف اور خواہشات سے مبرا ہوتی ہیں۔ تصوف نہ تو رسم ہے اور نہ علم اگر رسم ہوتا تو مجاہدات سے اور علم ہوتا تو تعلیمات سے حاصل ہو جاتا۔‘‘
حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کا مشہور قول ہے ’’تصوف ایک اخلاقی شے ہے جو اخلاق وعادات اختیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ ’’دنیا دشمنی‘‘ اور ’’خدا دوستی‘‘ کا نام تصوف ہے۔‘‘
حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کے سیرت وکردار کی یہ خاص علامت تھی کہ آپ خدا کی مخلوق سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے دکھوں اور غموں کو دیکھ کر بے قرار ہو جاتے تھے اور بڑے سوز و گداز کے ساتھ عام مسلمانوں کی مغفرت کیلئے دعا کرتے تھے۔ مشہور بزرگ حضرت شیخ جعفری خدریؒ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے کانوں سے حضرت شیخ ابوالحسن نوریؒ کو مناجات کرتے سنا:
’’خدایا! تو نے اپنے بندوں کو پیدا کیا اور پھر ان ہی کو دوزخ کا عذاب دے گا لیکن تیرے اندر یہ قدرت بھی تو ہے کہ تو ابو الحسن کے وجود سے جہنم کو بھر دے اور اس کے بدلے میں تمام دوزخیوں کو جنت میں داخل فرما دے۔‘‘
حضرت شیخ جعفری خدریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی رات خواب دیکھا کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا:
’’ابوالحسن کو ہمارا یہ پیغام پہنچا دو کہ مخلوق کی محبت کے بدلے میں ہم نے اس کی مغفرت فرما دی۔‘‘
یہی وہ جذبہ جاں نثاری تھا کہ جس کے زیر اثر حضرت شیخ
نوریؒ نے مقتل میں آگے بڑھ کر اپنی گردن تلوار کے نیچے رکھ دی تھی اور جب جلاد نے اس بے قراری اور عجلت کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا تھا:
’’میں اس لئے پہلے قتل ہونا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھیوں کو زندگی کی چند سانسیں مل جائیں۔‘‘