پہلا حصہ
عراق پر 20 برس حکومت کرنے کے بعد 54 برس کی عمر میں حجاج بن یوسف بیمار ہوا۔ حجاج کی پوری تاریخ ظلم و سفاکیت سے پر ہے۔ بعض مورخین کے مطابق اس نے 70 ہزار بے گناہوں کا خون بہایا۔ سر قلم کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس کی قہر آلود تلوار سیدنا سعید بن جبیرؒ جیسے جلیل القدر تابعین کے خون سے بھی رنگین ہوئی۔ مگر اس مقدس خون کے گرانے کے بعد سعید بن جبیرؒ کی دعا کے طفیل اسے دوبارہ کسی بے گناہ کے قتل کا موقع نہ ملا۔ وہ جلد ہی بیمار ہوگیا۔
اس کے معدے میں بے شمار بچھو نما کیڑے پیدا ہو گئے تھے اور جسم کو ایسی سخت سردی لگ گئی تھی کہ آگ کی بہت سی انگیٹھیاں بدن سے لگا کر رکھ دی جاتی تھیں۔ پھر بھی سردی میں کمی نہیں ہوتی تھی۔ جب زندگی سے نا امیدی ہوگئی تو حجاج نے گھر والوں سے کہا کہ مجھے بٹھا دو اور لوگوں کو جمع کرو۔ لوگ آئے تو اس نے حسب عادت ایک بلیغ تقریر کی، موت اور سختیوں کا ذکر کیا، قبراور اس کی تنہائی بیان کی۔
دنیا اور اس کی بے ثباتی یاد کی۔ آخرت اور اس کی ہولناکیوں کی تشریح کی۔ اپنے گناہوں اور ظلموں کا اعتراف کیا۔ پھر یہ شعر اس کی زبان پر جاری ہو گئے۔
ترجمہ: میرے گناہ آسمان اور زمین کے برابر بھاری ہیں۔ مگر مجھے اپنے خالق سے امید ہے کہ رعایت کرے گا۔
اگر اپنی رضامندی کا احسان مجھے دے تو یہی میری امید ہے۔ لیکن اگر وہ عدل کرکے میرے عذاب کا حکم دے۔
تو یہ اس کی طرف سے ہر گز ظلم نہیں ہو گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ رب ظلم کرے، جس سے صرف بھلائی کی توقع کی جاتی ہے؟
پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ موقعہ اس قدر عبرت انگیز تھا کہ مجلس میں کوئی بھی شخص اپنے آنسو روک نہ سکا۔
اس کے بعد اس نے اپنا کاتب طلب کیا اور خلیفہ ولید بن عبد الملک کو حسب ذیل خط لکھوایا:
’’امابعد! میں تمہاری بکریاں چراتا تھا۔ ایک خیرخواہ گلہ بان کی طرح اپنے آقا کے گلے کی حفاظت کرتا تھا، اچانک شیر آیا، گلہ بان کو طمانچہ مارا اور چراگاہ خراب کر ڈالی۔ آج تیرے غلام پر وہ مصیبت نازل ہوئی ہے، جو ایوبؑ پر نازل ہوئی تھی۔ مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح اپنے بندے کی خطائیں بخش اور گناہ دھونا چاہتے ہیں۔‘‘
پھر خط کے آخیر میں یہ شعر لکھنے کا حکم دیا:
ترجمہ: ’’اگر میں نے اپنے خدا کو راضی پایا تو بس میری مراد پوری ہوگئی۔
سب مر جائیں مگر خدا کا باقی رہنا میرے لیے کافی ہے! سب ہلاک ہو جائیں مگر خداکی زندگی میرے لیے کافی ہے۔
ہم سے پہلے یہ موت چکھ چکے ہیں ، ہم بھی ان کے بعد موت کا مزہ چکھیں گئے۔
اگر میں مر جاؤں تو مجھے محبت سے یاد رکھنا ، کیونکہ تمہاری
خوشنودی کے لیے میری راہیں بے شمار تھیں۔
یہ نہیں تو کم ازکم ہر نماز کے بعد دعامیں یاد رکھنا جس سے جہنم کے قیدی کو کچھ نفع پہنچے۔
حضرت بصریؒ عیادت کو آئے تو حجاج نے ان سے اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا۔ حسنؒ نے کہا ’’میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوکاروں کو نہ ستا، مگر افسوس تم نے نہیں سنا۔‘‘
حجاج نے خفا ہو کر جواب دیا ’’ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے دعا کرو ، میں تم سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ خدا جلد از جلد میری روح قبض کرے اور اب زیادہ عذاب نہ دے۔‘‘
اسی اثناء میں ابومنذر یعلی بن مخلد مزاج پرسی کو پہنچے اور کہا:
حجاج! موت کے سکرات اور سختیوں پر تیرا کیا حال ہے؟
حجاج نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا: ’’اے یعلٰی! کیا پوچھتے ہو۔ شدید مصیبت! سخت تکلیف! ناقابل بیان الم، ناقابل برداشت درد! سفر دراز! توشہ قلیل! آہ! میری ہلاکت! اگر اس جبار و قہار نے مجھ پر رحم نہ کھایا!‘‘(جاری ہے)