الفاظ کا استعمال میں نے منٹو سے سیکھا

چوتھی قسط
ثنااللہ خان احسن
سائوتھ انڈین فلم انڈسٹری میں 1982ء اور 1995ء کے درمیان میں سب سے پسندیدہ منظر نگار اور مکالمہ نویس بن چکا تھا۔ ان فلموں میں ’’میری آواز سنو‘‘، ’’انگار، ’’جیل یاترا‘‘، ’’ستے پہ ستا‘‘، ’’قاتلوں کے قاتل‘‘، ’’وقت کی آواز‘‘، ’’قلی نمبر ون‘‘، ’’میں کھلاڑی تو اناڑی‘‘، ’’قانون اپنا اپنا‘‘، ’’سلطنت‘‘، ’’باپ نمبری بیٹا دس نمبری‘‘، ’’ہمشکل‘‘، ’’ساجن چلے سسرال‘‘، ’’ہیرو ہندوستانی‘‘، ’’آنٹی نمبر ون‘‘ اور ’’راجا بابو‘‘ شامل ہیں۔ میں نے راکیش روشن کی فلموں کیلئے بھی مکالمے لکھے جیسے ’’خون بھری مانگ‘‘، ’’کالا بازار‘‘ اور ’’خود غرض‘‘ وغیرہ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ بطور مزاحیہ اداکار میرے سفر کا آغاز فلم ’’ہمت والا‘‘ اور ’’آج کا دور‘‘ سے ہوا۔ پھر 1989ء سے میں نے مکمل طور پر مزاحیہ فلموں کو اپنا لیا اور بڑے یادگار رول نبھائے۔ ان فلموں میں ’’سکہ‘‘، ’’کشن کنہیا‘‘، ’’ہم‘‘، ’’گھر پریوار‘‘، ’’بول رادھا بول‘‘ اور پھر 90ء کی دہائی میں ’’آنکھیں‘‘، ’’تقدیر والا‘‘، ’’میں کھلاڑی تو اناڑی‘‘، ’’دولہے راجہ‘‘، ’’ساجن چلے سسرال‘‘، ’’سوریہ ونشم‘‘، ’’جدائی‘‘، ’’گھروالی باہر والی‘‘، ’’اناڑی نمبر ون‘‘ وغیرہ ہیں۔ 2000ء کے عشرے میں بھی میں نے متعدد رول نبھانے کی کوشش کی جن میں ’’انکھیوں سے گولی مارے‘‘، ’’چلو عشق لڑائیں‘‘، ’’سنو سسرجی‘‘، ’’یہ ہے جلوہ‘‘ اور ’’مجھ سے شادی کروگی‘‘ شامل ہیں۔
بالی ووڈ والے مجھے ہر فن مولا کہتے تھے۔ مکالمے ہوں یا منظر نگاری، المیہ ہوں یا مزاحیہ۔ میں نے ہر ہر جگہ انصاف کیا۔ ایک طرف آپ میرے گووندا کے ساتھ مزاحیہ کردار اور مکالمے دیکھئے تو دوسری طرف جب میں نے ’’مقدر کا سکندر‘‘ لکھی تھی تو اس میں ایک اہم سین ہے جہاں بچپن میں امیتابھ بچن رات کو قبرستان میں ماں کے مرنے پر رو رہا تھا۔ وہاں سے گزرنے والا ایک فقیر (قادر خان) اس بچے سے کہتا ہے کہ ’’اس فقیر کی ایک بات یاد رکھنا۔ زندگی کا صحیح لطف اٹھانا ہے تو موت سے کھیلو، سکھ تو بے وفا ہے چند دنوں کے لیے آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ دکھ تو اپنا ساتھی ہے، اپنے ساتھ رہتا ہے۔ پونچھ دے آنسو۔ دکھ کو اپنا لے۔ تقدیر تیرے قدموں میں ہوگی اور تو مقدر کا سکندر ہوگا۔‘‘ یہ سین میں نے اپنے گھر کے پاس والے اسی یہودی قبرستان سے لیا تھا، جہاں میں بچپن میں بیٹھ کر خودکلامی کرتا تھا۔ آپ امیتابھ بچن کی 70ء اور 80ء کی دھائی کی فلموں کے ڈائیلاگ سنیئے جنہوں نے امیتابھ بچن کو امر کردیا ہے تو دوسری طرف ڈیوڈ دھون کی فلموں میں گووندا کے ڈائیلاگ سنیئے۔ لیکن تب بھی اپنے ڈائیلاگ میں خود ہی لکھتا تھا۔ بنا خود ہنسے یا آڑھے ترچھے منہ بنائے بغیر فلم بینوں کو کیسے ہنسایا جا سکتا ہے؟ یہ گر قادر خان میں تھا۔
1983 میں، میں نے فلم ’’ہمت والا‘‘ لکھی اور اپنے لیے کامیڈی والا کردار بھی۔ تب تک میں ولن والے موڈ سے باہر آنا چاہتا تھا۔ وہاں سے میرے لکھنے اور اداکاری، دونوں میں بدلاؤ کا دور شروع ہوگیا۔ مکالموں میں نفاست کی جگہ ٹپوری پن والے ڈائیلاگ نے لے لی۔ میں فلموں کی بگڑتی زبان کا الزام خود کو بھی دیتا ہوں لیکن پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ میں نے کبھی بھی اپنے ڈائیلاگز میں فحش اور ذومعنی الفاظ استعمال نہیں کئے۔ اگر آپ کو میرے مکالمے سننے ہیں تو من موہن ڈیسائی کی فلمیں دیکھئے۔ من موہن ڈیسائی کہانی میں ٹوئسٹ کے بادشاہ تھے۔ وہ ہر مکالمہ ایسا چاہتے تھے کہ جس پر تالیاں بجیں۔ میں ان کی یہ کمزوری سمجھ گیا تھا۔ فلم ’’امر اکبر انتھونی‘‘ کا ایک مکالمہ سنیئے ’’تلوار کا وار جسے مار نہ سکے ، وہ امر ہے۔ آگ کو جلا کر جو خاک کر ڈالے وہ اکبر ہے۔ انہونی کو جو ہونی کردے وہ انتھونی ہے‘‘۔
فلم ’’ہم‘‘ میں ’’محبت کو سمجھنا ہو تو پیارے خود محبت کر، کنارے سے کبھی اندازہ ء طوفاں نہیں ہوتا۔‘‘
فلم ’’اگنی پتھ‘‘ میں ’’وجے دینا ناتھ چوہان، پورا نام۔ باپ کا نام دینا ناتھ چوہان۔ ماں کا نام سوہاسنی چوہان، گاؤں مانڈوا، عمر 36 سال، نو مہینے آٹھ دن اور یہ 16 واں گھنٹہ چالو ہے۔‘‘
فلم ’’قلی‘‘ میں ’’ہماری تعریف ذرا لمبی ہے۔ بچپن سے سر پر اللہ کا ہاتھ اور اللہ رکھا ہے اپنے ساتھ۔ باجو پر 786 کا ہے بلا، 20 نمبر کی بیڑی پیتا ہوں، کام کرتا ہوں قلی کا اور نام ہے اقبال۔‘‘
فلم ’’انگار‘‘ میں ’’ایسے تحفے (بندوق) دینے والا دوست نہیں ہوتا۔ تیرے باپ نے 40 سال ممبئی پر حکومت کی ہے۔ ان کھلونوں کو بل پر نہیں، اپنے دم پر۔‘‘
ایسے ہی بے شمار مکالمات جو تماشائیوں کو خون گرما دیں اور وہ بے اختیار واہ، واہ کرنے لگیں یا قہقہے لگانے لگیں۔ تماشائیوں کے موڈ اور مزاج کو میں نے تھیٹر میں کام سے سیکھا۔ جب میں انٹر کالج ڈرامیٹک کمپیٹیشن کیلئے لکھتا تھا تو اس زمانے میں ایک تھیٹر پلے جس کا نام ’’بھارتیا ودے بھاون‘‘ تھا انتہائی مشکل ترین ثابت ہوا۔ اس ڈرامے کے تماشائی میری زندگی کے مشکل ترین تماشائی تھے۔ انتہائی خطرناک اور فنکار کا سارا اعتماد متزلزل کردینے والے۔ جیسے ہی اداکار اسٹیج پر اپنی انٹری دیتا وہ سب باآواز بلند کہتے آئو،جیسے کہ چیلنج دے رہے ہوں۔ یہ اجتماعی آئو سن کر ہی اداکار کا پتا پانی ہو جاتا، پھر تماشائی ایک ساتھ، بیٹھو کا نعرہ لگاتے اور اداکار گھبرا کر بیٹھ جاتا۔ میں نے ان تماشائیوں سے بڑا سبق سیکھا۔ اس آڈیٹوریم میں چار سو تماشائیوں کی گنجائش تھی لیکن جس دن میرا ڈرامہ ہوتا، تماشائیوں کی تعداد سترہ اٹھارہ سو تک پہنچ جاتی اور میں ہر لائن ہر مکالمے پر ان کو تالیاں بجانے پر مجبور کردیتا۔ میں تماشائیوں کی نفسیات سمجھ گیا تھا کہ پہلے کم از کم دس ایسے مکالمے یا لائنیں اس پائے کی ہونی چاہئیں کہ جو تماشائیوں کو تالیاں بجانے پر مجبور کردیں۔ اس طرح آپ ان کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ پھر آپ اپنا اصل پیغام پہنچانا شروع کرتے ہیں۔ لیکن اس درمیان بھی گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہنا چاہئے جو تماشائیوں کو تالیاں بجانے میں مصروف رکھے۔ تھیٹر کا یہی تجربہ میں نے فلموں میں استعمال کیا۔
ہر ڈائیلاگ کے تین ردعمل ہوتے ہیں۔ رائٹر کا اپنا رد عمل، ڈائریکٹر کا رد عمل اور تماشائیوں کا رد عمل۔ یہ تینوں ردعمل یکساں بھی ہوسکتے ہیں اور بالکل مختلف بھی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لکھاری اپنے تئیں کسی مکالمے کو لکھ کر سوچتا ہے کہ اس کی یہ لائنیں تو تماشائیوں میں ایک تہلکہ مچادیں گی، لیکن اس کے برعکس جب وہی مکالمے اسٹیج پر بولے جاتے ہیں تو انتہائی ٹھنڈا رسپانس ملتا ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کی دانست میں ایک بالکل عام سی لائن پر انتہائی گرمجوش ردعمل مل جاتاہے۔ ایک لکھاری کو کسی بھی سین کی منظر نگاری اور اداکاری کی مکمل طور پر تصور کشی ضرور آنی چاہئے۔ ایک مکالمہ نگار کو لازمی اداکاری بھی آنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ فلموں کے اکثر اچھے لکھاری اور مکالمہ نگار تھیٹر سے ہی آتے ہیں۔ اپنی ذاتی زندگی میں بھی ہم کئی مرتبہ اداکاری کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب ہم جھوٹ بولتے ہیں تو ہمارے چہرے کے تاثرات میک اپ کا کام کرتے ہیں جو آپ کا اصل چہرہ چھپا دیتے ہیں۔ اداکاری میں آواز کا بڑا دخل ہے۔ جب آپ بولتے ہیں تو تماشائیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ لفظوں کا انتخاب، آواز کا زیر و بم، آپ کا انداز، یہ سب مل کر ایک اداکار بناتے ہیں۔ ایک اداکار ایک گلوکار کی طرح ہوتا ہے جو اپنے مکالمے صرف بولتا نہیں بلکہ ان کو گاتا ہے۔ اس کا ہر ڈائیلاگ ایک شعر کی طرح ہونا چاہیئے جسے وہ ایک خاص دھن اور توازن کے ساتھ بولتا ہے۔ یہی دھن اور توازن سننے والے پر ایک خوشگوار تاثر چھوڑتا ہے۔ یہی تاثر سننے والے کی توجہ مبذول کرواتا ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ یہ ہے کہ مرد کی آواز میں ایک گونج اور کچھ گرج ہونی چاہیئے۔ کچھ دھمک اور حلق کے ساتھ ناک کا استعمال بھی آنا چاہئے۔ ان تمام کا تال میل آواز کو ایسا بنادیتا ہے جیسے کہ گنبد میں کوئی گھنگھرو گرا ہو۔ جب آپ ایسی آواز میں بولتے ہیں تو سامعین مبہوت رہ جاتے ہیں اور وہ آپ کی پرفارمنس یا اداکاری بھول کر الفاظ میں کھو جاتے ہیں۔ الفاظ میں بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن الفاظ کو ادا کرنے کا گر آنا چاہیئے۔
منٹو وہ لکھاری ہے جس سے میں بہت متاثر ہوں۔ میں نے منٹو سے اچھا آئیڈیا لینا اور موثر الفاظ لینا سیکھا۔ اکثر لوگ کسی بڑے آئیڈیا کو بیان کرنے کے لئے بڑے بڑے الفاظ اور لمبی لمبی تحاریر کا سہارا لیتے ہیں جبکہ میں نے منٹو سے بڑے آئیڈیا کو مختصر اور سادے الفاظ میں بیان کرنے کا ہنر سیکھا۔ یہی میرا اسٹائل بن گیا جس نے مجھے فلموں میں کامیابی دلائی۔ غالب سے میں نے منظر نگاری سیکھی ہے۔ آپ کے منظر میں میں ایک تخیل نگاری ہونی چاہئے جو چند الفاظ میں بیان کردی جائے۔ جس طرح چند الفاظ پر مشتمل دو مصرعوں کا شعر سننے والے کے دل پر ٹھک سے کر کے لگتا ہے اور پھر اس سے سوچ کے دھارے نکلتے ہیں۔ ہر مصرعے یا لائن کا ایک ایک لفظ دوسرے سے مربوط ہو۔ یہی ربط تماشائیوں اور سامعین کو اپنی گرفت میں رکھتاہے۔ اگر آپ اپنے اسکرپٹ میں منٹو اور غالب کی یہی خصوصیات یکجا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر آپ یقینا کامیاب فلم رائٹر ہیں۔
90ء کی دہائی تک آتے آتے میں نے لکھنا کم کر دیا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ من موہن ڈیسائی اور پرکاش مہرہ ہم سے جدا ہوچکے تھے۔ ان کے بغیر کام کرنے کا مزہ نہیں رہا تھا۔ لیکن ڈیوڈ دھون اور گوندا کے ساتھ میری جوڑی خوب جمنے لگی تھی اور مجھے ان کے ساتھ کام کرنے میں مزہ آنے لگا۔ تاہم 28 سال مسلسل فلموں میں لکھنے اور اداکاری کرنے کے بعد میں شاید اکتا سا گیا تھا۔ بنیادی طور پر میں ایک ٹیچر تھا۔ میرے باپ نے مجھے ہمیشہ استاد بننے کا سبق دیا اور اسی سے میں نے اپنی زندگی کی شروعات کی۔ میرے اندر کا ٹیچر کبھی نہیں مرا۔ فلمی دنیا کی چکاچوند، شہرت، پیسہ اور گلیمر بھی میرے اندر کا استاد نہیں مار سکے۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس کبھی نہ کبھی ضرور کچوکے لگاتا تھا کہ میرے شاگرد میرا انتظار کررہے ہیں۔ میرا کلاس روم میرا انتظار کررہا ہے۔
پھر میں نے دیکھا کہ نئی نسل فلمی دنیا میں داخل ہورہی ہے۔ نئے نئے لڑکے جو میرے پرانے ڈائریکٹروں کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرتے تھے اور اسسٹنٹ بھی فرسٹ نہیں، بلکہ بطور تھرڈ اسسٹنٹ۔ فورتھ اسسٹنٹ کام کرنے والے ہیرو اور ہدایتکار بن گئے تھے۔ یہ ایک بڑا جنریشن گیپ تھا۔ میرے اور ان کی سوچ و خیالات میں بڑا فرق تھا۔ میں نے ایک دو نئے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا، لیکن ہماری کچھ جمی نہیں۔ رفتہ رفتہ میں پیچھے ہٹتا گیا۔ میرے دور عروج کے اکثر ہدایتکار اور اداکار فلمی دنیا سے ریٹائر ہوچکے تھے۔ نئی نسل کے اداکاروں اور ہدایتکاروں کی ہر سوچ اور خیالات امپورٹڈ ہیں۔ میں اسی زمین سے اسی مٹی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں کماٹھی پورہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ جب تک مجھے بھارتی باشندوں کا وہ اصلی اور عوامی ماحول نہیں ملے گا، میں نہ لکھ سکتا ہوں اور نہ اداکاری کرسکتا ہوں۔ نئی نسل کمپیوٹر سائنس، مینیجمنٹ اور کمپیوٹر گرافکس کی بات کرتی ہے۔ ڈائیلاگ، کہانی اور منظر نگاری کے بجائے سارا زور تکنیک اور امپورٹڈ خیالات پر ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں یہ سب نہیں تھا۔ مینیجمنٹ ایک بہت اچھی چیز ہے جس سے مزید بہتری آسکتی ہے۔ لیکن نئی نسل لٹریچر سے قطعی نابلد ہے۔ اصلی مصنف ناپید ہوچکے ہیں۔ لکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ نے زمانے کے گرم و سرد سہے ہوں۔ لکھنے کے لئے وہ تجربات اور احساسات چاہئیں جو وقت اور حالات کی بھٹی میں تپنے کے بعد ہی آتے ہیں۔ تکالیف اور زندگی کے دکھ کیا ہوتے ہیں؟ نئی نسل کے نزدیک ایک لڑکے کا ایک لڑکی کی نگاہ التفات نہ ملنا یا اپنی محبوبہ کا چار گھنٹے انتظار کرنا دکھ یا تکلیف ہے۔ بتائیے کیا یہ زندگی کے غم اور مصائب ہیں؟ زندگی کے غم اور مصائب وہ ہوتے ہیں جو جھیلنے والے کے لاشعور میں بیٹھ جائیں اور جب وہ لکھے تو اس کی تحریر میں نمایاں ہوں۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ وہ لکھ سکیں، ان کو بول سکیں۔ ان غموں اور تکالیف کی یاد زندگی بھر آپ کو رونا نہیں بھلاتی۔ انسان کس لئے روتا ہے؟ زندگی کے غم اور تکالیف بخارات بن کر آنکھوں کے ذریعے بہہ جاتے ہیں اور انسان ہلکا ہوجاتا ہے۔ لیکن لاشعور کا کیمرہ ان سب کو ریکارڈ کر کے محفوظ کرلیتا ہے۔ پھر زندگی کے کسی موڑ پر ایک پروجیکشن روم میں یہی کیمرہ پروجیکٹر بن جاتا ہے اور وہ سارا سین جب آپ کی سوچ یا نگاہوں کے سامنے چلتا ہے تو آپ پھر رونے لگتے ہیں۔ یہ پروجیکٹر کوئی فلمی سین یا تحریر بھی ہوسکتا ہے یا حقیقی زندگی کا کوئی جذباتی لمحہ یا منظر بھی ہوسکتا ہے۔ انسان کا دل اور دماغ اندر سے کئی حصوں میں بٹا ہوتا ہے۔ ہمارا جسم سامنے چلنے والے منظر کے مطابق ردعمل دیتا ہے۔ یہ تمام مناظر ہمارے لاشعور میں کہیں نہ کہیں محفوظ ہوتے ہیں۔ یہی لاشعور میں محفوظ یادیں ہمیں کبھی ہنساتی ہیں اور کبھی رلاتی ہیں۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment