علمانے شہید مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کردیا

نجم الحسن عارف
ہل پارک کراچی میں پچاس سال سے قائم مسجد کو شہید کئے جانے پر علمائے کرام اور مفتی حضرات نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار حکومت کے دور میں مسجدوں کو شہید کیا جانا ناقابل قبول ہے۔ بدقسمتی سے حکومت نے ملک میں شراب خانے کھولنا آسان اور مساجد کی تعمیر مشکل بنا دی ہے۔ قدیم مسجد شہید کرنے کے ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ درج کرکے انہیں کوڑے مارے جانے چاہئیں۔ نیز فوری طور پر انہی کے خرچے پر اسی جگہ دوبارہ مسجد تعمیر کی جانی چاہئے۔ علما نے سرکاری زمین پر ضرورت کے تحت بنائی گئی مسجد کے قیام کو بھی درست قرار دیا۔ ’’امت‘‘ نے اس حوالے سے مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام سے بات کی جو نذر قارئین ہے۔
قادری زوار بہادر کا کہنا تھا کہ جائز جگہ پر قائم مسجد قانونی اور شرعی طور پر ناجائز نہیں۔ مسجد کو کفار تو مسمار کرسکتے ہیں، مسلمانوں سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی۔ مسلمان حکومتوں اور مملکتوں میں ایسی کوئی نظیر ہی نہیں۔ ہندوستان میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کی سمجھ آتی ہے کہ وہ مشرکین تھے ۔ اس اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
کراچی میں قدیم مسجد کی شہادت کے حوالے سے مولانا عبدالرئوف فاروقی نے کہا کہ مسجد کو شہید کرنا، اللہ سے بغاوت کا ارتکاب اور اللہ اور اس کے دین سے دشمنی کا اظہار ہے۔ اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمانوں نے ماضی میں ایسے واقعات کو تسلیم نہیں کیا۔ مسجد شہید گنج کے حوالے سے تو باضابطہ تحریک چلائی گئی تھی۔ انگریز کے دور میں بھی کسی کو ایسا کرنے نہیں دیا گیا۔ ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت میں تو ایسا کوئی اقدام کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مسجد تو مفاد عامہ کے زمرے میں بھی نہیں آتی تھی۔ تاہم اگر مفاد عامہ کا مسئلہ بھی ہو تو مفتی حضرات سے اجازت لی جانی چاہئے۔ ریاست کو ایسے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرنا چاہئے۔ اگر ریاست نے اللہ اور اس کے دین کے ساتھ دشمنی کے اس ارتکاب کا نوٹس نہ لیا تو یہ سخت مشکلات کو دعوت دینے والی بات ہوگی۔
علامہ راغب نعیمی نے کہا کہ ’’ہم مطلق فتوے کے تناظر میں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو مسجد جائز طریقے سے اور تمام شرعی و قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بنائی گئی ہو وہ اب قیامت تک مسجد اور مسلمانوں کی سجدہ گاہ رہے گی۔ کسی بھی اتھارٹی، ادارے یا فرد کو اس امر کا اختیار نہیں کہ وہ ایسی مسجد کو شہید کرسکے۔ اگر جائز بنیادوں پر بنائی گئی مسجد تھی، تو اسے شہید کرنے والے عنداللہ جواب دہ ہیں اور انہیں قبیح فعل کیلئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ریاستی قانون 295۔ اے کے تحت بھی ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ اس بارے میں کلیئر نہیں ہوں۔ اس بارے میں وکلا سے رائے لینی چاہئے۔ تاہم مساجد شعائر اسلام میں داخل ہیں۔ شعائر اسلام کے خلاف کوئی بھی اقدام جائز نہیں۔ علما کو تو اس حکومت نے اس قدر باندھ کر رکھ دیا ہے کہ اب مسجد اور مدرسے کی رجسٹریشن بہت مشکل بنادی ہے۔ حکمرانوں نے شراب خانہ کھولنا آسان بنا دیا ہے جبکہ مسجد بنانا عملاً غیر ممکن بنادیا ہے‘‘۔
جامعہ نعیمیہ کے مفتی محمد عمران نے کہا کہ مسجد کو جو بناتا ہے اس کی اپنی مِلک میں ہونی چاہئے۔ جائز جگہ پر مسجد بنی ہو تو اسے گرانا کسی بھی صورت جائز نہیں، یہ ایک شرعی مسجد ہوتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کھلی جگہ پر مقامی لوگوں نے مسجد تعمیر کرلی ہو تو اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد اسے گرانے کا کوئی جواز نہیں، جیسا کہ یہ مسجد پچاس سال سے قائم تھی ۔ اسلامی ریاست میں مساجد کی تعمیر و تحفظ حکومتی ذمہ داری میں شامل ہے۔ مسجد گرانے والوں کے خلاف مقدمہ بننا چاہئے ۔ مسجد کی توہین کرنے اور گرانے والے کیخلاف دفعہ 295 اے کے تحت کارروائی جانی چاہئے۔ شریعت میں کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ مسجدوں کو شہید کرے۔ پچاس سال سے قائم مسجد بھی جائز کے زمرے میں آتی ہے۔
پیر محفوظ مشہدی نے کہا کہ ایسی مسجد جس کی ملکیت تجاوزات پر مبنی ہو، اسے بھی شہید کرنے کیلئے عدالت اور مفتیان کرام کی اجازت ضروری ہے اور جو مسجد جائز زمین پر بنی ہو اسے شہید کرنا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس پر احتحاج کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اسی جگہ پر دوبارہ مسجد تعمیر کرائے ۔ مولانا عبدالمالک کا کہنا تھا کہ مسجد شہید کرنے والوںکو گرفتار کرکے کوڑے لگائے جائیں اور انہی کے خرچ پر مسجد دوبارہ اسی جگہ پر تعمیر کی جائے۔ بلدیہ کراچی کے سب سے بڑے ذمہ دار نے مسجد شہید کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ علما کو چاہئے کہ مدعی نہیں اور اصل ذمہ داروں کو عدالتوں سے سزا دلوائیں۔
سنی علما کونسل کے چیئرمین مولانا اشرف گورمانی کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین پر ضرورت کے تحت مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد گرانا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ انتظامیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہل پارک کی مسجد سے نہ تو شہر کو کوئی نقصان ہورہا تھا نہ ہی اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ لہذا یہ اقدام عنداللہ جرم ہے۔
مفتی محمد زبیر حق نواز نے کہا کہ تجاوزات کا خاتمہ اگر قانونی ضرورت ہے تو عوامی مقامات پر مساجد کی تعمیر بھی اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پچاس برس سے قائم مسجد پر بغیر نوٹس بلڈوزر پھیرنے کا عمل افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ قرآنی نسخوں سمیت دینی کتب کی الماریاں گرا دینا انتہائی تکلیف دہ اور اشتعال انگیز اقدام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ ایڈووکیٹ کے دور میں اس مسجد کو قانونی اسٹیٹس دیدیا گیا تھا۔ طویل عرصہ تک ایک حکومتی ادارہ سی پی ایل سی اس کی تزئین وآرائش اور مرمت کا کام کرتا رہا۔ اس کے باوجود اچانک بغیر کسی نوٹس کے مسجد گرا دینا انتہائی اشتعال انگیز اور قابل مذمت اقدام ہے۔
پاکستان یکجہتی کونسل کے رہنما قاری سجاد تنولی کا کہنا تھا کہ عوامی مقامات پر مساجد کی تعمیر اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، جیسا کہ تمام اسلامی ممالک میں معمول ہے۔ ہل پارک کی مسجد کو گرانے کے بجائے ریگولرائز کیا جانا چاہئے تھا۔ لیکن مسجد کو شہید کرنے کا گھنائونا فیصلہ کیا گیا، جس پر عوام شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اسی مقام پر دوبارہ مسجد تعمیر کی جائے۔
جامعہ خدیجۃ الکبری کے مہتمم مولانا محمد دائود خان کا کہنا تھا کہ ساری زمین اللہ کی ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ تعالی کا گھر بنانا جائز ہے۔ اسلامی ریاست میں عوامی مقامات پر مساجد تعمیر کرنا ریاست کا کام ہے۔ جب ریاست اپنے کام میں کوتاہی کرتی ہے تو لوگ خود فلاحی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ عوام کی جانب سے ضرورت کے تحت بنائی گئی مسجد کو گرانا ناجائز ہے اور عنداللہ گرانے والے مجرم ہیں۔
وفاق المدارس سندھ کے ترجمان مولانا طلحہ رحمانی کا کہنا تھا کہ تجاوزات کے نام مسجد منہدم کرنا اسلام دشمن رویہ ہے۔ ایسے اقدامات سے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے۔ انتظامیہ فوری طور پر معافی مانگ کر دوبارہ مسجد تعمیر کرے۔
جامعہ عثمانیہ شیر شاہ کے رئیس قاری محمد عثمان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی دین دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ مساجد کو تجاوزات کا نام دیکر ڈھانا شعائر اسلام کی توہین ہے۔ ہل پارک کی راہ نما مسجد کو شہید کرکے وہاں فحاشی کا اڈہ قائم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میئر کراچی تجاوزات کے خاتمے کے عدالتی حکم سے تجاوز کررہے ہیں۔ کسی کو بھی منبر و محراب کی حرمت پامال نہیں کرنے دیں گے۔ دینی مدارس و مساجد امن و سلامتی کے مراکز ہیں۔ علمائے کرام کو ان کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنی ہوگی، ورنہ جو کھیل میئر کراچی کے ذریعے شروع کرایا گیا ہے اگر اسے روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو شہر کی سینکڑوں مساجد و مدارس کو شہید کردیا جائیگا۔
میمن مسجد بولٹن مارکیٹ کے امام و خطیب مولانا اکرام المصطفی اعظمی کا کہنا تھا کہ مساجد بنانے میں احتیاط کرنی چاہئے۔ تاہم اگر کوئی مسجد بن گئی تو وہ قیامت تک کیلئے مسجد ہے، اس کو شہید کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے۔
خدمت امت فاؤنڈیشن کے چیئرمین شہزاد احمد سلفی کا کہنا تھا کہ ایک جگہ مسجد بن گئی تو اس کو شہید کرنا ناجائز امر ہے۔ انتظامیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے اور اللہ کا گھر اللہ کی زمین پر بنایا جاسکتا ہے۔ علمائے کرام عموماً خریدی ہوئی اور ذاتی زمین پر ہی مساجد قائم کرتے ہیں۔ تاہم جب ریاست ضرورت کے تحت مساجد نہ بنائے تو لوگ خود اللہ کا گھر تعمیر کرتے ہیں۔ میئر وسیم اختر نے مسجد شہید کرکے لوگوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا ہے۔
جامعہ تعلیم القرآن و سنہ کے مہتمم مفتی شبیر احمد عثمانی کا کہنا تھا کہ وسیم اختر کو چاہئے تھا کہ وہ اس اقدام سے قبل علمائے کرام سے رابطہ کرتے۔ قدیم مسجد کو شہید کرنا غیر شرعی کام ہے، اس کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔

Comments (0)
Add Comment