سی ٹی ڈی اہلکار نشے میں تھے-تحقیقات شروع

امت رپورٹ
سی ٹی ڈی پنجاب کے مشکوک مقابلے کی مختلف پہلوئوں پر تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ فائرنگ کے وقت سی ٹی ڈی اہلکار نشے میں تو نہیں تھے ؟ اور یہ کہ کہیں اس واقعہ میں ذاتی دشمنی کا عنصر تو شامل نہیں؟ واضح رہے کہ واقعہ میں دو خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس حوالے سے اب تک جتنے شواہد سامنے آئے ہیں ، ان کے مطابق بظاہر یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا ، جس میں سفاک سی ٹی ڈی اہلکاروں نے معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو بے دردی سے قتل کردیا۔ مقتولین کی آج لاہور میں تدفین ہوگی اور اس موقع پر بڑا احتجاج متوقع ہے۔
ہفتے کی دوپہر پیش آنے والے اس افسوسناک واقعہ کے بارے میں پہلے سی ٹی ڈی اہلکاروں کا دعویٰ تھا کہ وہ تین بچوں کو اغوا کرکے لے جارہے تھے ، جنہیں بازیاب کرالیا گیا ہے۔ تاہم جب فائرنگ سے بچ جانے والے ایک بچے نے بتایا کہ وہ مغوی نہیں بلکہ مارے جانے والے اس کے والدین تھے اور یہ کہ اس کے والد خلیل کی منت سماجت کے باوجود سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کار پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ اس انکشاف کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں نے پینترا بدلا اور کہا کہ مارے جانے والے دہشت گرد تنظیم داعش کے سہولت کار تھے۔ جبکہ کار سے بارودی جیکٹس اور اسلحہ بھی ملا ہے۔ تاہم عینی شاہدین نے سی ٹی ڈی کے اس جھوٹ کا پول بھی کھول دیا اور بتایا کہ کار پر سی ٹی ڈی اہلکاروں کی طرف سے یکطرفہ فائرنگ کی گئی اور یہ کہ کار میں سے کسی قسم کا اسلحہ یا خود کش جیکٹس نہیں ملیں ۔ مقتولین خلیل اور نبیلہ کے کمسن بیٹے نے بتایا کہ وہ اپنے چچا عرفان کی شادی میں شرکت کے لئے جارہے تھے۔ عینی شاہدین کے بقول کار سے اسلحہ اور خود کش جیکٹس کے بجائے کپڑوں کے بیگ اور کچھ تحائف برآمد ہوئے، جس سے کمسن بچے کی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ بدقسمت خاندان شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے جارہا تھا۔ دوسری جانب ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے بیان نے بھی سی ٹی ڈی کے دعویٰ کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے مارے جانے والے کار سواروں کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ اس سے قبل واقعہ کو حقیقی پولیس مقابلہ قرار دینے کی کوشش میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے لئے پنجاب پولیس نے ایک بیان جاری کیا۔ ڈی پی آر نبیلہ غضنفر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ساہیوال کی سی ٹی ڈی ٹیم نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے جبکہ ان کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد برآمد کرلیا گیا۔
مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے پولیس کے اس بیان کو متاثرہ خاندان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غریب لوگ ہیں اور اس کے مقتول بھائی کی چونگی امر سدھو میں کریانے کی دکان تھی۔ وہ اپنی فیملی اور ایک دوست کے ساتھ شادی میں بورے والا گیا تھا ۔ کل تین کاریں اس شادی میں شرکت کے لئے روانہ ہوئی تھیں۔ دو کاریں پیچھے رہ گئیں اور خلیل کی کار آگے نکل گئی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اسے دہشت گرد قرار دے کر فیملی سمیت قتل کردیا گیا ہے۔ مقتولین کے ایک اور رشتہ دار نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں میں خلیل، اس کی اہلیہ نبیلہ ، بارہ سالہ بیٹی اریبہ اور ایک دوست شامل ہے۔ واقعہ کے بعد مقتولین کے خاندان کے لواحقین ڈی ایچ کیو اسپتال کے باہر جمع ہوگئے تھے۔ انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ مل کر اسپتال کی قریبی سڑک اور لاہور میٹروبس سروس کے ٹریک کو بلاک کردیا ۔ بعد ازاں یہ احتجاج لاہور کے علاوہ ساہیوال اور بورے والا تک پھیل گیا ۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مقتول خلیل کی والدہ کو جب اپنے بیٹے کی موت کی اطلاع ملی تو وہ بھی صدمے سے دم توڑگئیں۔
لاہور میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب نے مشکوک پولیس مقابلے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیدیا ہے ، تاہم واقعہ کے بعد سے متعلقہ سی ٹی ڈی اہلکار غائب ہوگئے ہیں اور ہفتے کی رات 9 بجے ان سطور کے لکھے جانے تک گرفتاریاں عمل میں نہیں آسکی تھیں۔ واقعہ کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے لیکن پولیس ڈپارٹمنٹ اور بالخصوص سی ٹی ڈی کے ذمہ داران کی طرف سے ملزمان کو بچانے کے لئے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ واقعہ کی تین سے چار مختلف پہلوئوں پر تحقیقات کئے جانے کا امکان ہے۔ جس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ واقعہ کے وقت فائرنگ کرنے والے سی ٹی ڈی اہلکار کہیں نشے میں تو نہیں تھے؟ جبکہ اس پہلو پر بھی تفتیش ہوگی کہ مارے جانے والوں کی کسی سے ذاتی دشمنی تو نہیں تھی کہ کسی نے پیسے دے کر یہ کارروائی کرادی ہو؟
پنجاب میں انکائونٹر اسپیشلسٹ پولیس افسران کے ساتھ کبھی رابطے رکھنے والے ایک ذریعہ کے بقول صوبے میں جعلی پولیس مقابلوں کی روایت ٰ شہباز شریف نے اپنی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور میں ڈالی تھی۔ جب ٹاپ ٹین فہرست کے کئی بدنام اشتہاریوں نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ ذریعے کے مطابق سابق وزیراعلیٰ کے متعارف کردہ اس طریقہ پر عملدرآمد کے حوالے سے اس وقت کے آئی جی پنجاب رانا مقبول نے خاصی شہرت حاصل کی، جو بعد میں سندھ کے آئی جی بھی بنے اور نواز حکومت کا تختہ الٹے جانے تک اس منصب پر فائز تھے، اس وقت وہ رکن سینیٹ ہیں۔ ذریعہ کے مطابق رانا مقبول کے ساتھ پنجاب میں بعض دیگر انکائونٹر اسپیشلسٹ کا نام لیا جاتا تھا ان میں عمر ورک ، عابد باکسر اور نوید سعید سرفہرست رہے۔ نوید سعید عرف نیدی پہلوان 2005ء میں اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ جبکہ عابد باکسر ریٹائر ہوچکا ہے۔ ذریعہ کے بقول انکائونٹر اسپیشلسٹ پولیس افسروں نے بدنام اشتہاریوں کو تو جعلی مقابلوں میں ٹھکانے لگایا ہی تھا ، تاہم وہ ایسے کئی واقعات سے آگاہ ہے ، جب پیسے لے کر یا کسی بااثر دوست کی ذاتی دشمنی کو بھگتانے کے لئے بھی بعض لوگوں کو مشکوک پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ لہٰذا حالیہ واقعہ کی اس پہلو پر تفتیش ناگزیر ہے اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انٹیلی جنس رپورٹ پر غلطی سے بے گناہ افراد کو تو مقابلے میں نہیں ماردیا گیا۔
ادھر واقعہ کے خلاف لاہور ، ساہیوال اور بورے والا میں احتجاج کیا جارہا ہے جبکہ آج (اتوار کو) جنازوں کے موقع پر بھی لاہور میں بڑے پیمانے پر احتجاج کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ عوام میں زیادہ غم و غصہ وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیانات کے بعد سامنے آیا جس میں انھوں نے خلیل ، اس کی بیوی اور خاندانی دوست کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیا تھا۔ دوسری جانب جائے وقوعہ کی وڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہیں اس سے بھی عوام میں شدید اشتعال پیدا ہورہا ہے۔
’’امت‘‘ کو لاہور کے مقامی ذرائع نے بتایا کہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لوگ بڑی تعداد میں روڈوں پر نکل آئے اور انہوں نے شدید احتجاج کیا۔ عوام نے اس موقع پر فیاض الحسن چوہان اور چوہدری فواد کے پتلے بھی نذر آتش کئے۔ جبکہ مقتولین کے محلہ داروں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ مقتول خلیل کے ایک پڑوسی عبدالجبار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’مجھے اس وقت شدید دھچکہ لگا جب اطلاع ملی کہ خلیل اس کی بیوی، بیٹی اور دوست کو دہشت گرد کہہ کر گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیاہے۔ خلیل اور اس کے خاندان کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کسی بھی دہشت گردی اور جرم میں ملوث نہیں تھے، اور پچھلے 35 برس سے اس علاقے میں رہائش پذیر تھے۔‘‘
’’امت‘‘ کے رابطے پر ایک اور پڑوسی عثمان جو کہ مذکورہ علاقے میں دکان بھی کرتے ہیں کا کہنا تھا کہ کم عمر بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں مارنا کھلی دہشت گردی ہے جو کہ قابل برداشت نہیں ہے اور پھر فیاض الحسن اور فواد چوہدری نے جس طرح پولیس گردی کا دفاع کیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ محلے داروں کے مطابق خلیل کے دوست ذیشان کاایک بھائی احتشام ڈولفن پولیس کااہلکار ہے۔
واقعہ کے فوری بعد عینی شاہدین نے موقع کی وڈیوز اور تصاویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کردیا تھا۔ جبکہ کئی ایک نے تو موقع ہی سے اپنے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ یہ پولیس مقابلہ نہیں تھا بلکہ یک طرفہ طور پر فائرنگ ہوئی ہے جس میں بے گناہ لوگ قتل کئے گئے۔ اسی طرح کی ایک ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم بس میں راستے سے گزر رہے تھے کہ اس دوران ہماری بس کار کے برابرکھڑی ہوئی تو دیکھا کہ کچھ سادہ لباس افراد کار پر فائرنگ کر رہے ہیں۔‘‘ ایک اور عینی شاہد کے وڈیو پیغام کے مطابق فائرنگ کا نشانہ بنانے والی گاڑی لاہور کی جانب سے آرہی تھی، جسے اہلکاروں کی گاڑی نے روکا اور فائرنگ کردی جبکہ گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ ایک اور وڈیو پیغام میں صبور نامی شخص نے کہا ہے کہ فائرنگ کے واقعے کے بعد زندہ بچ جانے والے بچوں کو قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا گیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین کو مار دیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سی ٹی ڈی پولیس بچوں کو اپنے ساتھ موبائل میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئی، جن میں سے ایک بچہ فائرنگ سے معمولی زخمی ہوا۔

Comments (0)
Add Comment