تابعین کے ایمان افروزواقعات

قسط44
ایک دن قاضی شریحؒ نے کسی شخص کو دوسرے سے کچھ مانگتے ہوئے دیکھا تو بڑے پیار سے نصحیت کی اور فرمایا:
(ترجمہ) میرے بھتیجے! جو کسی انسان سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھیک مانگے، گویا اس نے اپنے آپ کو اس انسان کی غلامی کے سپرد کر دیا۔ اگر اس شخص نے جس سے مانگا تھا، سوالی کی ضرورت کو پورا کر دیا، تو اس نے گویا اسے اپنا ذہنی غلام بنا لیا اور اگر اسے جواب دے دیا تو دونوں ذلیل وخوار ہوکر واپس لوٹے۔ ایک بخل کی ذلت کے ساتھ… اور دوسرا ناکامی کی ذلت ورسوائی کے ساتھ… جب بھی تجھے کچھ مانگنا ہو اپنے رب سے مانگو… اور جب بھی مدد طلب کرو تو اپنے رب سے مدد طلب کرو… خوب اچھی طرح یہ بات جان لو کہ برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی توفیق اور مدد دینے کا حقیقی اختیار رب تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔‘‘ اس لیے ہر معاملے میں اسی خدا سے مدد مانگنی چاہئے۔ کبھی کوئی پریشانی ہو، کوئی مسئلہ اٹکا ہوا ہو تو رب ہی سے مانگیں۔
کوفے میں ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ قاضی شریحؒ کا ایک دوست اس وبا سے بچنے کی خاطر نجف (جگہ کا نام ہے) چلا گیا۔ قاضی شریحؒ نے اس کی طرف ایک خط لکھا:
(ترجمہ) اما بعد… جس جگہ کو تم چھوڑ کر گئے ہو، وہ تمہاری موت کو قریب نہیں کر سکتی تھی اور نہ وہ جگہ تمہاری باقی زندگی کے دن چھین سکتی تھی، جتنے سانس اس دنیا میں تم اپنی زندگی کے لائے ہو، اتنے سانس پورے کر کے ہی تم کو جانا ہے اور جس جگہ تم نے جاکر پڑاؤ ڈالا ہے، وہ جگہ بھی اس ذات کے قبضے میں ہے، جسے کوئی طلب عاجز نہیں کرسکتی اور نہ ہی بھاگنے والا اس کے دائرئہ اختیار سے باہر نکل سکتا ہے۔ یاد رکھو! ہم اور آپ ایک ہی بادشاہ کے دسترخوان پر بیٹھے ہیں۔ بلاشبہ نجف (کا علاقہ) قدرت والے رب العزت جل جلالہ کے بہت قریب ہے۔‘‘
ان بے بہا خوبیوں کے علاوہ قاضی شریحؒ ایک ایسے زبردست شاعر تھے، جن کے اشعار بطور دلیل پیش کئے جاتے، ان کا اندازِ شاعری دل کھنیچنے والا… اور دل پر جم جانے والا تھا…اور اظہارِ خیال کے لیے موضوعات نہایت عمدہ اور انوکھے ہوا کرتے تھے۔
ان کا ایک دس سالہ بیٹا کھیل کود کا بڑا ہی شوقین تھا۔ ایک دن اسے غیر حاضر پایا۔ چوں کہ وہ مدرسہ/ اسکول چھوڑ کر کتوں کی لڑائی دیکھنے چلا گیا، جب واپس آیا تو آپؒ نے بیٹے سے پوچھا نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے کاغذ قلم منگوایا اور اس استاد کی طرف یہ اشعار لکھ بھیجے۔ جن کا ترجمہ درج ذیل ہے:
٭ یہ چند آوارہ اور بے ہودہ لڑکوں کے ساتھ مل کر کتوں کی لڑائی دیکھتا رہا، ان کے پیچھے بھاگتا رہا اور اس نے نماز چھوڑ دی۔
٭ آپ کے پاس یہ ایک رقعہ لے کر آئے گا، جو خاص طور سے اس کی تربیت اور اصلاح کے لیے لکھا گیا ہے۔
٭ جب یہ آپ کے پاس آئے تو اس کا علاج شفقت بھری ملامت سے کرنا یا ایک عقل مند ودانش مند ادیب کی طرح وعظ ونصیحت کے ذریعے اس کو سمجھانے کی کوشش کرنا۔
٭ اگر اسے آپ مارنا چاہیں تو کوڑے سے مارنا اور جب تین کوڑے مارلیں تو پھر رک جانا۔
٭ یقین کیجئے جو سلوک بھی آپ اس کی اصلاح وتربیت کے لیے کریں گے، اس میں اس لڑکے کا ذاتی فائدہ ہے، باوجود یہ کہ میں اس کی وجہ سے غم کے کڑوے گھونٹ پی رہا ہوں، پھر بھی مجھے یہ سب سے زیادہ عزیز ہے۔
خدا سجانہ وتعالیٰ، فاروقِ اعظم سیدنا عمر بن خطابؓ سے راضی ہوں، انہوں نے اسلامی عدالت کی پیشانی کو ایک قیمتی روشن اور دل کش موتی (قاضی شریحؒ) سے سجایا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ایسا روشن چراغ تحفہ دیا، جس کی روشنی سے شریعت الٰہی پر چلنے کے راستے روشن ہوئے اور لوگ مسلسل اس کے حکیمانہ فیصلوں کی روشن شعاعوں سے روشنی حاصل کرتے رہیں گے اور رسول اقدسؐ کی سنت مطہرہ کی اتباع کے لیے ان کی سمجھائی ہوئی روشن ہدایات سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے اور مسلمان قیامت کے دن قاضی شریحؒ کے وجود پر فخر کریں گے۔ حق تعالیٰ قاضی شریحؒ پر رحم فرمائے کہ انہوں نے لوگوں میں پورے ساٹھ سال تک عدل وانصاف قائم کیا۔ انہوں نے کسی ایک شخص پر بھی ظلم نہ کیا اور نہ ہی کبھی فیصلہ دیتے وقت کسی بادشاہ اور عام لوگوں میں فرق کیا۔ نہ عام لوگوں میں کوئی امتیاز برتا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment