تثلیث سے توحید تک

دوسرا حصہ
سرلارڈ برنٹنن انگلستان کے ایک ممتاز جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ سرلارڈ برنٹنن ہے بے پناہ عزّت وافتخار اور نیک نامی کے حامل تھے۔ وہ عقیدہ تثلیث کو چھوڑ کر مسلمان ہوئے۔
وہ قبولِ اسلام کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’آج میرا دل مسرّت و انبساط کے ایسے جذبات سے بھرپور ہے، جنہیں میں بیان کرنے پر اپنے آپ کو قادر نہیں پاتا۔ میں والدین کے کہنے پر تعلیم مکمل کرکے چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ ہوگیا۔
مجھے عیسائیت کے جس عقیدے نے سخت پریشان کرنا شروع کیا، وہ انسان کے ازلی گناہ گار ہونے کا عقیدہ تھا، پھر اس پر یہ تصوّر کہ معدودے چند افراد کے سوا باقی ساری مخلوق دائمی عذاب سے دوچار ہوگی۔ ان نظریات سے مجھے اتنی گھن آتی کہ میں تقریباً بے دین ہوگیا۔ مذہب کا سارا ڈھانچہ میری نظروں میں مشکوک ہوگیا۔
پھر میں نے دوسرے مذاہب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اسلام کے مطالعے سے شکوک و شبہات کی گرہیں کھلتی چلی گئیں اور میرے اندر سچے خدا کی عبادت اور خدمت کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ مطالعے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ انسانیت پر حضرت محمدؐ کے اتنے احسانات ہیں کہ ان کے خلاف بغض کا اظہار کرنا ظلمِ عظیم ہے۔‘‘
ایک معذور لڑکی کو ایمان کی دولت نے اتنی ہمت عطا کی کہ وہ منشیات کے بے تاج بادشاہ برنارڈو کے محل تک پہنچ گئی اور بلاخوف اسے اس برائی سے باز آنے کی تلقین کی۔ برنارڈو نے دھتکار دیا۔ مگر معذور لڑکی کے ارادے اور استقامت میں فرق نہ آیا، اس نے کوششیں جاری رکھیں اور بالآخر اس نے ایک خطرناک مجرم کو گناہ کی زندگی سے توبہ کرنے پر قائل کرلیا۔ جس پر عظیم باکسر محمد علی نے اس کے گھر جاکر اور امریکی صدر نے وائٹ ہائوس بلا کر اس نو مسلم معذور لڑکی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ امریکا اور یورپ کے نومسلم سمجھتے ہیں کہ یہاں کے باشندوں کو ترقی اور خوشحالی تو حاصل ہے، مگروہ زندگی کے اصل مقصد سے ناآشنا ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں ہے کہ ’’ہم کیوں پیدا کیے گئے ہیں؟ کیا اس زندگی کا کوئی مقصد ہے؟ کیا زندگی اور موت کسی کے دائرئہ اختیار میں ہے؟ کیا اس دنیا اور کائنات کا کوئی حاکمِ اعلیٰ ہے یا یہ کسی حادثے کے نتیجے میں ہی پیدا ہو گئی ہے؟‘‘
ہندوستان کی مشہور نو مسلم خاتون راجکماری جاوید بانو بیگم بنگال کے ایک ہندو راجہ کی صاحبزادی تھیں، اعلیٰ تعلیم کی حامل تھیں، انہوں نے کامل تحقیق کے بعد اسلام قبول کیا اور اس سلسلے میں بہت سی تکلیفیں برداشت کیں۔ وہ حق کی تلاش میں ہندومت، عیسائیت اور بدھ مت کی طرف راغب ہوتی رہیں، مگر انہیں کہیں صداقت نظر نہ آئی۔ اسلام کی طرف راغب ہونے کے بارے میں کہتیں ہیں:
’’آخرکار میں نے صداقت کو پالیا، میں بہت ہی خوش ہوں اور میری روح مطمئن ہے۔ صرف اسلام ہی انصاف، انسانیت اور آزادی کا مذہب ہے، جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ اسلام ہی روزمرہ زندگی میں ہمارا سچا رہنما ہو سکتا ہے۔ میں یقینِ واثق سے کہتی ہوں کہ کوئی دوسرا مذہب اصلاح اور خوشی کا موجب نہیں ہوسکتا سوائے اسلام کے، جو خدا کی سچی محبت اور انسانیت کی سچی الفت اور حقانیت پر مبنی ہے۔‘‘
پچانوے فیصد غیر مسلموں کو روشنی اس وقت نصیب ہوئی جب ان کی براہ راست قرآن تک رسائی ہوئی اور انہوں نے خدا کے اپنے کلام کا مطالعہ کیا، ایسا کیوں نہ ہوتا خود خالقِ کائنات نے قرآن کو انسانوں کے لیے ہدایت اور شفا قرار دیا ہے۔ جو بھی خلوصِ دل سے کتابِ حق کا مطالعہ کرے گا اسے یقیناً ہدایت بھی ملے گی اور شفا بھی۔ اسلام کے نور سے فیضیاب ہونے والے زیادہ ترخواتین و حضرات کا کہنا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے اس لیے متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ ہمارے خیال میں: قرآن کی زبان اور اس کے پر شکوہ انداز سے ایک پڑھا لکھا شخص آسانی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ کسی انسان کی زبان نہیں ہے۔ یہ کائنات کے طاقتور ترین تخلیق کار اور حاکمِ اعلیٰ کا طرزِ تخاطب ہے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق مسلمان گزشتہ ساری کتابوں کو (اگرچہ وہ تحریف کی نذر ہو چکی ہیں) مقدّس اور الہامی مانتے ہیں، قرآن ہر قسم کی ترمیم و تبدیلی سے محفوظ ہے اور پہلی کتابوں اور رسولوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اسلام تمام مذاہب کے مقابلے میں کہیں زیادہ عقلی، عملی، فطری اور سادہ مذہب ہے۔ اسلام میں خدا کا تصور بڑا ہی باوقار اور پرشکوہ ہے۔ اسلامی عبادات انسان کا خدا سے براہِ راست تعلق جوڑتی ہیں۔ اسلام میں تمام انسانوں کے برابر ہونے equality کا تصور بڑا مسحور کن ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment