قلم لکھنے کا آلہ ہے۔ حق تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے۔ حضرت عبادہ بن الصامتؓ کی روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سب سے پہلے حق تعالیٰ نے قلم پیدا فرمایا اور اس کو حکم دیا کہ لکھ۔ قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ تو حکم دیا گیا: تقدیر الٰہی کو۔ قلم نے (حکم کے مطابق) ابد تک (یعنی آخر تک جس کی کوئی انتہا نہیں) ہونے والے تمام واقعات اور حالات کو لکھ دیا۔ (ترمذی شریف)
حضرت ابن عمرؓ کی حدیث شریف ہے کہ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیر کو آسمان و زمین کی تخلیق و پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا۔ (مسئلہ تقدیر پر بحث کرنے سے حضورؐ نے منع فرمایا ہے) حضرت قتادہؓ نے فرمایا کہ قلم خدا تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا فرمایا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے ایک قلم، قلم تقدیر پیدا فرمایا، جس نے تمام کائنات و مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں پھر دوسرا قلم پیدا فرمایا، جس سے زمین پر بسنے والے لکھتے ہیں اور لکھیں گے اور اس دوسرے قلم کا ذکر سورۃالعلق (پ30) میں آیا۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ ترجمہ: ’’جس (یعنی حق تعالیٰ) نے علم سکھایا قلم سے۔ (پ 30 آیت 4)
تعلیم کا سب سے پہلا اور اہم ذریعہ قلم و کتاب ہے۔ ایک حدیث شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے ہے کہ جس میں حضور اقدسؐ نے فرمایا: حق تعالیٰ نے ازل یعنی شروع و آغاز سے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنی کتاب میں جو عرش پر حق تعالیٰ کے پاس ہے، یہ کلمہ لکھا کہ ’’میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔‘‘
قلم کی تین قسمیں ہیں۔ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ عالم میں تین قلم ہیں۔ ایک سب سے پہلا قلم جس کو حق تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تقدیر کائنات لکھنے کا اس کو حکم دیا۔ (جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے) دوسرے فرشتوں کے قلم، جس سے وہ تمام ہونے والے واقعات اور ان کے مقادیر (مقدار کی جمع یعنی اندازے، تعداد اور شمارہ وغیرہ) کو نیز انسانوں کے اعمال کو لکھتے ہیں۔ تیسرے عام انسانوں کے قلم جن سے وہ اپنے کلام لکھتے اور اپنے مقاصد میں کام لیتے ہیں اور کتابت در حقیقت بیان کی ایک قسم ہے اور بیان انسان کی مخصوص صفت ہے۔