خلاصہ تفسیر
سو ان میں سے جو (حضور اقدسؐ پر) ایمان لائے، ہم نے ان کو ان کا اجر (وعدہ کیا ہوا) دیا (مگر ایسے کم تھے) اور زیادہ ان میں نافرمان ہیں (کہ آپؐ پر ایمان نہیں لائے اور چونکہ اکثریت نافرمانوں کی تھی، اس لئے سب ہی کی طرف رعایت نہ کرنا منسوب کر دیا گیا کہ ’’فما رعوھا‘‘ فرمایا، معلوم ہوا کہ یہ نفی رعایت اکثر کے اعتبار سے ہے اور قلیل جو ایمان لائے تھے، ان کا بیان آخر آیت میں بیان فرمایا۔ یہاں تک عیسائیوں میں سے ایمان لانے والوں اور نہ لانے والوں کی دو قسموں کا ذکر تھا، آگے ایمان والوں کو حکم ہے کہ) اے (عیسیٰ علیہ السلام پر) ایمان رکھنے والو! تم خدا سے ڈرو اور (اس ڈر کے مقتضیٰ پر عمل کرو یعنی) اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ، خدا تعالیٰ تم کو اپنی رحمت سے (ثواب کے) دو حصے دے گا ( جیسے سورئہ قصص میں ہے) اور تم کو ایسا نور عنایت کرے گا کہ تم اس کو لئے ہوئے چلتے پھرتے ہو گے (یعنی ایسا ایمان دے گا جو ہر وقت ساتھی رہے گا، یہاں سے پل صراط تک) اور تم کو بخش دے گا (کیونکہ اسلام سے زمانہ کفر کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں) اور خدا غفور رحیم ہے (اور یہ دولتیں تم کو اس لئے عنایت کرے گا) تاکہ (جس وقت ان عطایا کا ظہور ہو یعنی قیامت کے روز اس وقت) اہل کتاب کو (یعنی جو ایمان نہیں لائے ان کو) یہ بات معلوم ہو جاوے کہ ان لوگوں کو خدا کے فضل کے کسی جزو پر بھی (بغیر ایمان لائے) دسترس نہیں اور یہ (بھی معلوم جاوے) کہ فضل خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہئے دیدے (چنانچہ اس کی مشیت اس کے فضل کے ساتھ مسلمانوں سے متعلق ہوئی تو انہی کو عنایت فرما دیا) اور خدا بڑے فضل والا ہے (مطلب یہ کہ ان کا غرور اور زعم ٹوٹ جاوے کہ وہ حالت موجودہ میں بھی اپنے کو فضل کا مورد اور مغفرت کا محل سمجھتے ہیں) (جاری ہے)