ضیاء چترالی
حاتم طائی ثانی کہلانے والے سلیمان الراجحی کا شمار سعودی عرب کے مالدار ترین افراد میں ہوتا ہے۔ صفر سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے سلیمان الراجحی خیر کے کاموں میں حصہ لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کی وقف کردہ املاک کی مالیت 60 ارب ریال (223 ارب روپے) سے زائد ہے۔ جس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ سعودی جریدے ’’مکہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سلیمان الراجحی نے اُس وقت کھجوروں کے باغوں میں مزدوری شروع کی تھی، جن ان کی عمر 12 برس تھی۔ اس وقت انہیں ماہانہ صرف 6 ریال معاوضہ ملتا تھا۔ مگر انہوں نے محنت سے کام جاری رکھا۔ ساتھ کچھ پیسے بھی بچاتے رہے۔ پھر انہوں نے اپنے بھائی صالح الراجحی کے ساتھ مل کر صرف 400 ریال میں کاروبار شروع کیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کا شمار نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا کے مالدار ترین افراد میں ہونے لگا۔ سلیمان الراجحی 1929ء کو سعودی عرب شہر القصیم کے علاقے البکبریہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان نہایت غریب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان الراجحی کے اسکول میں پکنگ کا پروگرام بنایا گیا۔ ہر بچے سے ایک ایک ریال مانگا گیا۔ مگر سلیمان الراحجی کے اہل خانہ ان کیلئے ایک ریال کا بھی انتظام نہ کرسکے۔ جس پر سلیمان بہت رونے لگے۔ اس دوران اسکول کے امتحانات کا نتیجہ آگیا اور سلیمان نے کلاس میں پوزیشن لے لی تو ان کے ایک فلسطینی استاد نے انہیں بطور انعام ایک ریال دے دیا۔ یہی ریال انہوں نے پکنگ کیلئے جمع کرا دیا۔ جریدہ فوربس نے ان کے اثاثوں کی مالیت 8.4 ارب ڈالر لگایا اور انہیں دنیا کا 107 ویں مالدار ترین فرد قرار دیا۔ صفر سے ارب پتی بننے کا راز سلیمان الراجحی کی سخاوت اور خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ انہیں قدرت نے حقیقی معنوں میں دریا دلی کی صفت سے نوازا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال القصیم میں واقع دنیا کا سب سے بڑا کھجوروں کا باغ ہے۔ اس باغ میں کھجور کے 2 لاکھ سے زائد درخت ہیں اور سلیمان الراحجی نے اسے باغ راہِ خدا میں وقف کر رکھا ہے۔ اس باغ میں 45 قسم کی کھجوریں ہوتی ہیں۔ یہاں کی سالانہ پیداوار 10 ہزار ٹن کھجوریں ہیں۔ اس باغ کی آمدنی سے دنیا کے مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر، خیراتی کام اور حرمین شریفین میں افطاری کے دسترخوان سجائے جاتے ہیں۔ سلیمان الراحجی کے ان کے بھائی نے جدہ شہر میں ایک کمرے کو بینک کا نام دے کر کام شروع کیا۔ مختصر عرصے میں ’’مصرف الراجحی‘‘ کے نام سے بینکوں کا ایک جال پورے سعودی عرب میں پھیل گیا۔ اب اس کا شمار سعودی عرب کے سب سے بڑے بینکوں میں ہوتا ہے۔الراجحی بینک کی پانچ سو برانچیں ہیں۔ جس کے اثاثوں کی مالیت 124 ارب ریال ہے۔ اس کے علاوہ ان کی پولٹری کمپنی کا شمار بھی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ سلیمان الراجحی کے بڑے پیمانے پر کیٹل فارم بھی ہیں۔ جبکہ الراجحی کے نام سے اور بھی کئی شعبوں میں ان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ مگر ان کی شہرت مالداری کے بجائے خیر کے کاموں میں دل کھول کے خرچ کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ ’’موسسۃ سلیمان الراجحی الخیریۃ‘‘ نامی رفاہی ادارے کو دے دیا ہے۔ جس پر سعودی حکومت کی جانب سے انہیں شاہ فیصل ایوارڈ کیلئے چنا گیا۔ خیر کے کاموں کیلئے ان کی وقف کردہ املاک کی مالیت کا اندازہ 60 ارب ریال لگایا گیا ہے۔ پھر 2010ء میں سلیمان الراجحی نے اپنے بچوں، بیگمات اور عزیز و اقارب کو بلا کر اپنی بقیہ دولت ان سب میں تقسیم کر دی اور اپنے حصے میں جو کچھ آیا، اسے بھی سب اپنے رفاہی ادارے کے نام وقف کر دیا۔ مالدار ہونے کے باوجود سلیمان الراجحی اپنے فلسطینی استاذ کے احسان کو نہیں بھولے۔ انہوں نے استاذ کو ڈھونڈ نکالا۔ جس کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ راجحی فلسطینی استاذ کو گاڑی میں بٹھایا اور ان سے کہا کہ میرے اوپر آپ کا قرض ہے۔ استاذ نے کہا کہ مجھ مسکین کا کس پر قرض ہو سکتا ہے؟ راجحی نے اپنے استاذ کو یاد کرایا کہ برسوں پہلے آپ نے مجھے ایک ریال انعام دیا تھا۔ استاد مسکرایا کہ آپ اب وہ ایک ریال مجھے واپس کرنا چاہتے ہیں؟ راجحی نے ایک بنگلے کے سامنے گاڑی کھڑی استاذ سے کہا کہ یہ گاڑی اور یہ بنگلہ آپ کے ہیں۔ باقی تمام اخراجات کا بھی میں ذمہ دار ہوں۔ فلسطینی استاذ کی آنکھوں میں آنسو آئے اور کہا کہ یہ عالی شان بنگلہ اور یہ مہنگی گاڑی تو بہت زیادہ ہے۔ راجحی کا کہنا تھا کہ جب آپ نے مجھے ایک ریال انعام دیا تھا، اُس وقت میری خوشی آپ کی موجودہ خوشی سے زیادہ تھی۔ ٭