اینٹی کرپشن میں سندھ ٹورازم کا رپوریشن کے ایم ڈی طلب

عمران خان
سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ایم ڈی روشن کنسارو کیخلاف نیب انکوائری کے بعد صوبائی اینٹی کرپشن پولیس نے بھی تحقیقات تیز کردی ہیں۔ گزشتہ روز روشن کنسارو کو لیٹر لکھا گیا ہے جس میں انہیں 22 جنوری کو اینٹی کرپشن آفس میں طلب کرلیا گیا ہے۔ لیٹر میں تفتیشی افسر کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ روشن علی کنسارو سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ایم ڈی کی حیثیت سے منظور نظر کمپنیوں کو 20 کروڑ کے ٹھیکے دے کر بھاری منافع وصول کرنے کے الزام میں زیر تفتیش ہیں اور انہوں نے منصوبوں پر کام ہوئے بغیر کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کو بوگس بلنگ کے ذریعے سرکاری فنڈز جاری کئے۔ واضح رہے کہ روشن کنسارو پر کرپشن کے بدترین الزامات کے تحت نیب میں علیحدہ سے تحقیقات جاری ہیں، جس میں سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے 40 سے زائد منصوبوں پر خرچ ہونے والے 60کروڑ روپے کے فنڈز میں خورد برد کی گئی۔ اسی ہفتے نیب نے ڈی جی کلچرل ڈپارٹمنٹ سندھ سے ان تمام منصوبوں کا مکمل ریکارڈ بھی حاصل کیا ہے۔ روشن کنسارو اس وقت سندھ ٹورازم ڈپارٹمنٹ کے ہی ایک اور اہم شعبے پلاننگ، مانیٹرنگ سیل کے انچارج ہیں جہاں پر انہوں نے حالیہ دنوں میں بھی کروڑوں روپے مالیت کے 12 ٹینڈرز جاری کرنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔
’’امت‘‘ کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ذرائع سے موصول ہونے والے لیٹر نمبر سے معلوم ہوا ہے کہ اس انکوائری کے تفتیشی افسر محمد عرس زرداری کی جانب سے روشن علی کنسارو کو 22 جنوری کو طلب کیا گیا ہے، جبکہ حاصل دستاویزات میں اس کیس کے مدعی سید اظہر علی شاہ کا بھی تفصیلی لیٹر ایستادہ ہے جس میں انہوں نے اس انکوائری کے پہلے تفتیشی افسر بدر بھٹو پر حقائق سامنے لانے کے بجائے ملی بھگت کرکے روشن کنسارو کو بچانے کا الزام عائد کیا ہے۔ اظہر علی شاہ نے الزام عائد کیا ہے کہ انکوائری میں روشن کنسارو کو اتنا وقت دیا جا رہا ہے کہ وہ اور دو برس قبل ٹھیکے حاصل کرنے والے افراد نے اب اُن منصوبوں پر کام شروع کر دیا ہے جو ٹھپ پڑے تھے۔ ان منصوبوں کی تصاویر بطور شواہد مدعی کی جانب سے اینٹی کرپشن کے چیئرمین، سیکرٹری اور ڈائریکٹر کو بھی ارسال کردی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق سندھ ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن صوبائی وزارت سیاحت و ثقافت کا اہم ماتحت ادارہ ہے، جسے ڈی جی کلچرل سندھ کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس ادارے کا مقصد سندھ میں سیاحت کے فروغ کیلئے نت نئے منصوبے بنانا اور ثقافتی مقامات کی تشہیر کرنا ہے، جس کی ذمہ داری میں سندھ کے ایسے تمام تفریحی اور ثقافتی و تاریخی مقامات کی تزئین و آرائش کے ذریعے سیاحوں کیلئے مناسب ماحول پیدا کرنا شامل ہے۔ تاہم چند برسوں میں اس ادارے کے تحت کروڑوں روپے کے سرکاری فنڈز کو کرپشن کی نذر کردیا گیا اور سیاحت کی فروغ کے نام پر من پسند کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کو کام دے کر بھاری کمیشن حاصل کیا گیا۔ سیاحت کے فروغ کے ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے، جس کے بعد اسی ادارے کے بعض افسران کی جانب سے نیب اور اینٹی کرپشن پولیس کو دی جانے والی تحریری شکایات پر 4 ماہ قبل انکوائریوں کا آغاز کیا گیا۔
اینٹی کرپشن میں سندھ ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ایم ڈی روشن کنسارو کیخلاف انکوائری کی منظوری خود سابق چیف سیکرٹری سندھ میجر ریٹائرڈ محمد سلمان خان نے دی تھی جس کے بعد اس انکوائری پر تفتیشی افسر انسپکٹر بدر بھٹو کو تعینات کیا گیا تھا۔ تاہم دو ہی ماہ بعد انسپکٹر بدر بھٹو کے حوالے سے بھی سنگین الزامات سامنے آنا شروع ہوئے۔ اس حوالے سے چیئرمین اینٹی کرپشن غلام قادر تھیبو اور چیف سیکرٹری ممتاز شاہ کو آگاہ کیا گیا کہ انسپکٹر انکوائری میں ریکارڈ حاصل کرنے اور حقائق سامنے لانے کے بجائے روشن کنسارو سے تحفے وصول کررہے ہیں۔ اس ضمن میں دونوں کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات کا حوالہ بھی دیا گیا جس کے بعد اعلیٰ حکام نے اس کی تحقیقات ایک دوسرے انسپکٹر محمد عرس زرداری کے حوالے کیں جو کہ اس وقت تحقیقات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو ٹور ازم ڈپارٹمنٹ کے اندرونی ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس وقت بھی روشن کنسارو کے پاس وزارت سیاحت کے ایک اور اہم شعبے پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ سیل کا چارج ہے۔ یہ شعبہ نئے منصوبے شروع کرنے اور فنڈز خرچ کرنے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور حالیہ دنوں میں روشن کنسارو کی جانب سے 12 نئے ٹینڈرز جاری کرنے کیلئے پروسس شروع کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول اس وقت بھی ایک مخصوص کمپنی کا نمائندہ یہاں ہوتا ہے جس کی سفارشات اور مرضی کے مطابق ٹینڈرز میں مطلوبہ معلومات شامل کی جاتی ہیں۔
اس انکوائری کے تفتیشی افسر کی جانب سے روشن کنسارو کو طلب کرنے کیلئے ارسال کردہ لیٹر میں واضح طور پر درج کیا گیا ہے کہ انہوں نے خود ساختہ ٹھیکیداروں اور کمپنیوں کو کروڑوں روپے مالیت کے ٹھیکے دلوائے اور اس پر بھاری منافع ان کو دلوانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کیلئے لیٹر میں 34 منصوبوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
تحقیقات میں سندھ ٹورازم کلچرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے اُس منصوبے پر بھی کام کیا جا رہا ہے، جس کیلئے 3 برس میں 4 کروڑ روپے خرچ کئے گئے تھے۔ اس کے تحت صوبے بھر میں 5 ٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز بنائے گئے تھے، جس میں ابتدائی طور پر 20 ملازمین رکھے گئے، جن میں کمپیوٹر آپریٹرز اور ٹیلی فون آپریٹرز شامل ہیں۔ یہ منصوبہ اس لئے تیار کیا گیا تاکہ صوبے میں آنے والے سیاحوں کو صوبے کے تمام سیاحتی اور ثقافتی مقامات کی تفصیل فراہم کی جاسکے۔ یہ منصوبہ 2015 میں شروع کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اس منصوبے کو نصف دورانیے میں ہی روک دیا گیا، جس کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین کی تنخواہیں بھی روک دی گئیں۔ اس وقت بھی اس منصوبے کے تحت بھرتی ہونے والے ملازمین واجبات کیلئے دربدر ہیں۔
اس ادارے کو ہر برس کروڑوں روپے کا بجٹ اس لئے دیا جاتا ہے تاکہ سیاحتی اور ثقافتی سرگرمیوں کی مشہوری کیلئے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نہ صرف پروگرام منعقد کئے جاسکیں، بلکہ ویڈیوز، تصاویر، میگزین اور دیگر ذرائع سے صوبے میں سیاحت کے فروغ کیلئے بھرپور اقدامات کئے جاسکیں۔ تاہم بعض افسران جو کہ اس ادارے میں کئی برس سے مضبوط لابنگ رکھتے ہیں، نے بجٹ کو کرپشن کے ذریعے خورد برد کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جبکہ حالیہ عرصے میں یہ سلسلہ عروج پر پہنچ گیا، جس کے نتیجے میں صوبے میں سیاحت اور ثقافت کے فروغ کیلئے کی جانے والی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ ادھر ایک برس کے دوران فرنیچر، ٹیکنیکل آلات، ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر، گاڑیوں کی خریداری و مرمت، تشہیری مواد، پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ، یوڈیو گرافک، سیمینار، نمائشیں، فیسٹیولز، ملکی اور غیر ملکی دورے اور خریدے گئے سامان کی مرمت پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

Comments (0)
Add Comment