پنجاب پولیس کے ہاتھوں شہید وں کے جنازے میں عوام امڈ آئے

امت رپورٹ
ساہیوال میں سی ٹی ڈی پنجاب کے اہلکاروں کے ہاتھوں شہید افراد کی نماز جنازہ میں لاہور کے عوام امڈ آئے۔ دوسری جانب نماز جنازہ کے بعد شہدا کے عزیز و اقارب اور اہل محلہ سمیت غم و غصہ میں ڈوبے عوام کا مطالبہ تھا کہ وہ اس وقت تک تدفین نہیں کریں گے، جب تک قاتل اہلکاروں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ قتل درج نہیں کیا جاتا۔ یہ صورتحال رات دس بجے تک برقرار تھی اور میتیں دفنائی نہیں جا سکی تھیں۔ واضح رہے کہ اتوار کو پنجاب پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف لاہور اور ساہیوال میں دن بھر مظاہرے ہوتے رہے۔ جبکہ عوامی اشتعال دیکھ کر پولیس نے پسپا ہونے میں ہی عافیت جانی۔
ساہیوال سانحے میں والد خلیل اور والدہ نبیلہ کے ساتھ شہید ہونے والی تیرہ سالہ اریبہ کے چچا جلیل کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میری بھتیجی بورے والا میں شادی کی تقریب میں جانے پر بہت خوش تھی۔ یہ شادی کی تقریب ہمارے ایک چچازاد بھائی کے بیٹے کی تھی اور میرے بھائی، بھابھی، بھتیجی اور بچوں نے کچھ دن بورے والا میں گزارنے تھے ۔ شادی کی تقریبات کیلئے اریبہ کے ماں باپ نے اس کو اس کی مرضی کے نئے کپڑے دلائے تھے اور یہ شاپنگ اس نے اپنی ماں کے ہمراہ خود جا کر کی تھی جس کے لیئے اس کے والد نے خصوصی رقم دی تھی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’اریبہ نے طے کر رکھا تھا کہ اس نے کس فنکشن میں کون سے جوڑا پہننا ہے، مگر ان سب کی جگہ اس کو کفن پہنا دیا گیا ہے۔ میں نے اریبہ سے کہا تھا کہ وہ واپسی پر کچھ دن میرے پاس رہے تو وہ بہت پرجوش ہوگئی تھی۔‘‘ جلیل کا کہنا تھا کہ ’’ہم سب کو اریبہ بہت عزیز تھی اس کا بچپن میری گود میں گزرا ہے اور جب میں نے اس کو کہا کہ واپسی پر اس کو میں اپنے پاس کچھ دن رکھوں گا تو اس نے اسی وقت مختلف منصوبے بنانا شروع کردیئے تھے اور مجھ سے وعدے لینا شروع کردیئے تھے کہ میں اس کو کون کون سے رشتہ دار کے پاس لے کر جاؤں گا اور کہاں کہاں کی سیر کرائوں گا اور وہ کیا کیا کھائے پیئے گی۔‘‘ جلیل بات کرتے کرتے جذباتی ہو کر اونچی آواز میں رونا شرو ع ہوچکے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’اب میں اپنی اریبہ کو کہاں پر تلاش کروں گا کس طرح اپنے کم عمر بھتیجے اور بھتیجیوں سے نظریں ملا پاؤں گا اور ان کے سوالات کے جواب کہاں سے لاؤں گا۔‘‘ جلیل نے بتایا کہ ’’اریبہ انتہائی لائق طالبہ تھی۔ وہ مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور اس کے لیئے خوب محنت بھی کررہی تھی۔‘‘ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ان کو ایک بار پھر دھوکہ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے احتجاج اس بات پر ختم کیا تھا کہ پولیس سی سی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرے گئی۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے مگر وہ مقدمہ سی سی ڈی کے سولہ نامعلوم اہلکاروں کے خلاف درج کیا ہے جو ہمارے ساتھ ایک اور زیادتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’کل ہم نے احتجاج اس بات پر ختم کیا تھا کہ حکومت فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے گی، اب پتا نہیں حراست میں لیا گیا ہے کہ نہیں۔‘‘ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’’اگر واقعی حراست میں لیا گیا ہے تو پھر ان کے ناموں کے ساتھ مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا اور ان کو ملزم کیوں نہیں بنایا گیا ہے؟ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ انصاف کے راستے بندکیئے جارہے ہیں۔‘‘
ساہیوال سانحے میں قتل ہونے والے ڈرائیور ذیشان کے محلے داروں نے بھی ذیشان کے کسی قسم منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔ ذیشان کے گھر پر بھی سارا دب تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ مقتول شادی شدہ اور پانچ سالہ بچی کا باپ تھا۔ والد فوت ہوچکے تھے اور والدہ انتہائی تکلیف و کرب میں مبتلا ہیں۔
دوسری جانب شہید کئے جانے والے خلیل، ان کی بیوی نبیلہ اور بیٹی اریبہ کی میتیں ساہیوال سے لاہور لائی گئیں تو محلے میں کہرام مچ گیا تھا۔ جبکہ صبح کے وقت جب ساہیوال میں لواحقین کو میتیں دی گئیں تو انھوں نے تینوں میتوں کو روڈ پر رکھ کر احتجاج شروع کردیا تھا، یہ احتجاج کوئی سات گھٹے تک جاری رہا۔ جس کے بعد ساہیوال پولیس نے مقتول خلیل کے بھائی جلیل کو سولہ سی سی ڈی کے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ کی ایف آئی آر فراہم کی تو اس وقت احتجاج ختم کیا گیا اور میتیں لاہور روانہ کی گئیں۔
اتوار کے روز لاہور اور ساہیوال کے مختلف علاقوں میں دن بھر احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔ بعض مواقع پر اس وقت حالات انتہائی خرابی کی بڑھ رہے تھے جب پولیس اہلکاروں نے کوشش کی کہ وہ مظاہرین کو منتشر کریں۔ اس موقع پر مشتعل مظاہرین اور پولیس میں ہاتھاپائی بھی ہوئی، مگر اس سے پہلے کہ حالات زیادہ بگڑتے، پولیس موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پسپا ہوگئی۔

Comments (0)
Add Comment