میئر کراچی کیخلاف مقدمہ کے اندراج کیلئے درخواست دیدی گئی

عظمت علی رحمانی/ نمائندہ امت
ہل پارک کی راہ نما مسجد مسمار کرنے پر وسیم اختر، ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ اور ڈائریکٹر پارکس کے خلاف مقدمہ درج کرانے کیلئے درخواست تھانے میں دے دی گئی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس معاملے پر علمائے کرام کی کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جب تک مسجد کو دوبارہ تعمیر نہیں کرایا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔ وفاقی حکومت کی کوہسار اسکیم کے تحت ہل پارک میں مسجد قانونی طور پر موجود تھی۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پی ای سی ایچ سوسائٹی کے درمیان پہاڑی پر قائم ہل پارک کا منصوبہ وفاقی حکومت کا تھا، جس کو کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) سے باقاعدہ منظور کرایا گیا تھا۔ بعدازاں کے ڈی اے نے اس منصوبے کو کوہسار اسکیم کا نام دیا تھا۔ اس پروجیکٹ میں ہل پارک کے وسط میں مسجد کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ جبکہ اس وقت کی انتظامیہ کی جانب سے درمیان میں مسجد قائم کرنے کے بجائے اس مسجد کو ہل پارک کے ایک سائیڈ پر بنایا گیا تھا۔ سابق میئر نعمت اللہ خان کے حکم پر اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پارکس لیاقت نے علاقے کے منتخب نمائندوں کے ہمراہ ہل پارک کا سروے کیا تھا، جس میں طے کیا گیا تھا کہ مسجد کو اس کی اصل جگہ یعنی پارک کے درمیان میں بنایا جائے گا۔ لیکن بعد اس کو اسی جگہ (کونے) میں رہنے دیا گیا۔ تاہم گزشتہ جمعہ سے قبل کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور ڈائریکٹر جنرل پارکس آفاق مرزا سمیت دیگر افسران کے ہمراہ ہل پارک کا سروے کرکے وہاں قائم کمرشل ریسٹورنٹس کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ لیکن مسجد گرانے کی کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ تاہم میئر کراچی وسیم اختر اور ڈی جی پارکس آفاق مرزا کے حکم پر مسجد راہ نما کو شہید کردیا گیا۔
مقدمہ کے اندراج کیلئے درخواست دینے والے جماعت اسلامی کراچی کی پبلک ایڈ کمیٹی کے چیئرمین سیف الدین ایڈووکیٹ کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’ہل پارک کی مسجد کو میئر کراچی وسیم اختر نے گرایا ہے۔ یہ ان کی ذاتی خواہش کا شاخسانہ لگتا ہے، کیونکہ یہ ہل پارک کی قانونی مسجد تھی۔ ہم نے گزشتہ روز اس مسجد کے ملبے کے قریب احتجاج کیا ہے اور اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک مسجد کو دوبارہ تعمیر نہیں کرادیا جاتا۔ ہم نے تھانے میں اس مسجد کو گرانے والوں میئر کراچی وسیم اختر، ڈی جی پارکس آفاق مرزا، میونسپل کمشنر سیف الرحمن اور ڈائریکٹر انکروچمنٹ بشیر صدیقی کے خلاف فیروز آباد تھانے میں مقدمہ درج کرانے کیلئے درخواست دی ہے، جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ مذکورہ افراد کیخلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا جائے، کیونکہ انہوں نے شعائر اللہ کی توہین کی ہے۔ ہم جلد علمائے کرام کی کانفرنس بلائیں گے، جس میں سندھ حکومت سے مسجد کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کریں گے۔ کیونکہ سندھ حکومت اس میں ملوث ہے‘‘۔
سٹی کونسل میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہم نے مسجد کے انہدام میں ملوث تمام افراد کیخلاف مقدمہ درج کرایا ہے، کیونکہ انہوں نے زیادتی کی ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، میئر کراچی نے اس کو چین، کشمیر یا بھارت سمجھ کر یہاں مسجد کو شہید کیا ہے۔ اس اقدام کیخلاف ہر محاذ پر جائیں گے۔ امید ہے کہ ایک دو روز میں ایف آئی آر درج ہو جائے گی۔
اہلسنت رابطہ کونسل پاکستا ن کے مولانا سید مسرور ہاشمی کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’میئر کراچی نے مسجد کو مسمار کرکے ظلم کیا ہے۔ وہ چائنا کٹنگ پر کئی گئی تعمیرات بھی گرائیں تو ہم سمجھیں گے کہ وہ واقعی سپریم کوٹ کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں۔ ہم مسجد کے انہدام کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، اس کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے اور اس ایشو کو ہر فور م پر اٹھائیں گے‘‘۔
تحریک لبیک کراچی کے رہنما قاضی عباس کا کہنا تھا کہ حکومت اسلام اور شعائر اسلام کی دشمن بن گئی ہے۔ ملک میں شراب خانوں اور سینما گھروں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور خانہ خدا کو زمین بوس کردیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی اور بی جے پی حکومت میں کوئی فرق نہیں، دونوں ہی اسلام دشمن ہیں۔ انہدامی آپریشن کے دوران قرآن پاک اور دینی کتب کی سخت توہین کی گئی۔ یہ اقدام اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حکومت فوری طور پر قدیم مسجد کو دوبارہ تعمیر کرے اور مسجد شہید کرنے والے اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ بصورت دیگر مسلمانان پاکستان احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
جامعہ مخزن العلوم کے مہتمم مولانا ڈاکٹر قاسم محمود کا کہنا تھا کہ میئر کراچی وسیم اختر نے مسجد راہ نما پر بلڈوزر چلوا کر شعائر اللہ کی توہین کی ہے۔ ضرورت کے تحت پارک میں یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے وہاں کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا۔ روزانہ سینکروں افراد وہاں نماز ادا کرتے تھے۔ اس لئے مسجد کو شہید کرنا ظلم ہے۔ اس مسجد کو فی الفور دوبارہ تعمیر کیا جائے ورنہ تمام مسالک کے لوگ احتجاج کریں گے۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نصیر کیانی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو بغیر نوٹس دیئے کوئی بھی تجاوزات گرانا جرم ہے۔ لیکن اللہ کے گھر کو مسمار کرنا سنگین جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو عبادت کیلئے مسجد بناکر دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی جگہ مسجد نہ ہو تو سرکاری زمین پر علاقے کے لوگ مسجد بنالیں اور سالہا سال وہاں باجماعت نماز ہورہی ہو تو اس مسجد کا قانونی ہونا ثابت ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جب کچھ لوگ کسی جگہ سے سالہا سال گزرتے رہیں اور وہ مقام گزرگاہ کی صورت اختیار کر جائے۔ لیکن پھر یہ راستہ کوئی شخص بند کردے اور معاملہ عدالت میں جائے تو عدالت اس مقام کے تعین کیلئے کمیشن مقرر کرتی ہے اور عوامی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ صادر کرتی ہے۔ اس لئے مسجد راہ نما کی کمیٹی عدالت سے رجوع کرے۔ اگر اس مقام پر تیس پینتیس سال سے باجماعت نماز ہورہی تھی اور عوام کو کوئی تکلیف بھی نہیں تھی تو اس مسجد کا شہید کیا جانا قانونی جرم بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں مسجد امیر حمزہ کو گرایا گیا تھا، لیکن پھر عدالتی حکم پر سی ڈی اے نے اسے اسی جگہ دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ وہ مسجد اب بھی موجود ہے۔
’’امت‘‘ سے گفتگو میں ممتاز قانون دان حافظ مظہر جاوید ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ شہید کی گئی مسجد کی کمیٹی کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر ہائی کورٹ سے رجوع کرے۔ کئی دہائیوں سے قائم مسجد کو گرانا نہ صرف غیر شرعی بلکہ غیر قانونی اور سنگین جرم ہے۔ جس طرح پارک، سینما اور دیگر فلاحی و تعلیمی ادارے بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اسی طرح مذہبی تعلیم اور عبادت کیلئے مساجد بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت یہ ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی اور لوگوں نے ضرورت کے تحت کئی دہائی قبل مسجد بنالی، تو ایسی مسجد کو گرانا سراسر اسلام دشمنی ہے۔ حافظ مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسے متعدد فیصلے موجود ہیں، جن میں اعلیٰ عدالتوں نے متعلقہ انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنرز کو مساجد کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران قادیانی لابی نے اپنے اثرورسوخ کے ذریعے بعض مساجد کے خلاف آپریشن کرائے ہیں۔ چنیوٹ میں مولانا الیاس چنیوٹی کے مدرسے و مسجد کے ایک حصے کو گرایا گیا۔ لیکن پھر عدالت کے حکم پر ضلعی انتظامیہ کو دوبارہ تعمیر کرنا پڑا۔ مسجد راہ نما کی انتظامی کمیٹی کو بھی ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے۔
تحفظ ناموس رسالت لائرز فورم کے چیئرمین رائو عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تجاوزات کی آڑ میں مسجد کو کیوں گرایا گیا، اس سے حکومت یا عام افراد کو کیا نقصان ہورہا تھا۔ اب مسجد کی جگہ کا کیا استعمال ہوگا؟۔ یہ اہم سوالات ہیں، اگر عبادت کی جگہ کو محض کھنڈر بناکر چھوڑ دینا ہے تو یہ دُہرا جرم ہے۔ قرآنی تعلیم اور عبادت کیلئے جگہ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اس میں ناکام رہی اور لوگوں نے خود مسجد بنالی۔ یہ نکات عدالت کے سامنے اٹھائے جائیں تو عدالت انتظامیہ کو مسجد کی دوبارہ تعمیر کا حکم دے سکتی ہے۔
وجیہ اللہ خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جس جگہ باجماعت نماز کا اہتمام شروع ہوجائے، وہ جگہ مسجد ہے، اسے گرانا بڑا جرم اور شرعی طور پر سخت گناہ ہے۔ جو لوگ مسلمانوں کو مساجد میں آنے سے روکتے ہیں یا ان کی عبادت میں خلل ڈالتے ہیں، قرآن کریم میں ان کے خلاف سخت وعید آئی ہے۔ بغیر نوٹس دیئے عام تجاوزات کو گرانا بھی فوجداری جرم ہے، لیکن مسجد جس میں تمام شعائر اسلامی موجود تھے، ان کو بلڈوز کردینا سخت جرم ہے۔ اس کے مرتکب افراد کے خلاف فوجداری قانون کے تحت بھی کارروائی ہوسکتی ہے۔ نمازی حضرات اور مسجد کمیٹی والے عدالت میں جاسکتے ہیں اور انہیں جانا بھی چاہئے۔ عدالتی حکم پر انتظامیہ کو دوبارہ مسجد تعمیر کرنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ مسلمانوں کی بد دعائیں لے رہے ہیں۔ اگر سابق سٹی ناظم کراچی نعمت اللہ خان کے دور میں مسجد پر چھت ڈالی گئی تھی اور وہ سرکاری خزانے سے ڈالی گئی تو اس کا ریکارڈ بھی موجود ہوگا، جو عدالت میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے، یہ ریکارڈ بھی نکلوانا چاہئے اور ویسے بھی لاء آف لینڈ اس طرح کی قدیم مساجد گرانے کو جرم قرار دیتا ہے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیتا ہے۔
دیگر قانون دانوں کے برعکس جسٹس (ر) شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ ’’اگر لیز جگہ پر قائم مسجد کو گرایا گیا ہے تو قانون سے مدد طلب کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر یہ جگہ مسجد کیلئے لیز نہیں تھی تو پھر میرے خیال میں اب کچھ نہیں ہوسکتا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مسجد گرانے سے پہلے اگر عدالت سے رجوع کیا جاتا تو عدالت اسے نہ گرانے کا حکم دے سکتی تھی۔ یہ جگہ لیز پر لی گئی تھی یا نہیں، اس کا واضح ہونا ضروری ہے۔

Comments (0)
Add Comment