قاضی شریحؒ اپنی ضرورت اور حاجت کبھی کسی انسان سے طلب نہ فرماتے۔ بلکہ ہر مشکل میں اپنے رب سے رجوع کرتے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ کسی چیز کی چاہت ہو تو فوراً یہ چار رکعت نماز صلوٰۃ الحاجت کی نیت سے پڑھ کر دعا مانگے اور بار بار مانگے، جب لوگ سو رہے ہوں تو رات کو اٹھ کر گڑ گڑا کر، رو رو کر دعا مانگے۔ حق تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ ذیل میں صلوٰۃ الحاجت کے دو طریقے ذکر کئے جاتے ہیں:
فرات بن سلیمانؒ کہتے ہیں: حضرت علیؓ نے فرمایا:
ترجمہ: کیا تم میں سے کوئی یہ نہیں کرسکتا کہ کھڑا ہوکر چار رکعت نماز پڑھے، پھر اس میں یہ کلمات کہے، جو رسول اقدسؐ کہا کرتے تھے:
ترجمہ: ’’آپ کا نور مکمل ہے، چنانچہ آپ نے ہدایت دی، پس آپ ہی کے لیے تمام تعریف ہے۔ آپ بڑے بردبار ہیں۔ چنانچہ آپ نے بخش دیا، پس آپ ہی کے لیے تمام تعریف ہے۔ آپ نے اپنے ہاتھ کو کشادہ فرما کر عطا و بخشش سے نوازا۔ پس اے ہمارے رب! تمام تعریف آپ ہی کے لیے ہے۔ آپ کا مرتبہ سب سے عظیم اور آپ کا عطیہ افضل و خوش گوار عطیہ ہے۔ اے ہمارے رب! آپ کی اطاعت کی جاتی ہے تو آپ اس کی قدر فرماتے ہیں (اور ثواب عطا فرماتے ہیں) نافرمانی کی جاتی ہے تو مغفرت فرماتے ہیں، مجبور و بے کس کی دعا سنتے اور قبول فرماتے ہیں۔ تکلیف کو آپ ہی دور کرتے اور بیماری سے شفا عطا فرماتے ہیں۔ گناہوں کو معاف فرماتے ہیں اور توبہ قبول فرماتے ہیں۔ آپ کی نعمتوں کا کوئی بدلہ نہیں دے سکتا اور کسی کی تعریف آپ کی تعریف تک نہیں پہنچ سکتی۔‘‘
حضرت ابن ابی اوفیؓ سے روایت ہے رسول اقدسؐ نے فرمایا:
جس شخص کو کوئی حاجت اور ضرورت ہو، حق تعالیٰ سے متعلق یا کسی آدمی سے متعلق (یعنی خواہ وہ حاجت ایسی ہو جس کا تعلق براہ راست رب تعالیٰ ہی سے ہو، کسی بندے سے اس کا واسطہ ہی نہ ہو، یا ایسا معاملہ ہو کہ بظاہر اس کا تعلق کسی بندے سے ہو، ہر صورت میں) اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے اور خوب اچھا وضو کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد رب تعالیٰ کی کچھ حمد و ثناء کرے اور اس کے نبیؐ پر درود پڑھے، پھر رب تعالیٰ سے اس طرح عرض کرے:
ترجمہ: ’’خدا تعالیٰ کے سوا کوئی مالک و معبود نہیں، وہ بڑے حلم والا (بردبار) اور بڑا کریم ہے۔ پاک اور مقدس ہے وہ خدا جو عرش عظیم کا بھی رب اور مالک ہے۔ ساری حمد و ستائش اس خدا کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ خدایا! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ان اعمال اور ان اخلاق و احوال کا جو تیری رحمت کا موجب اور وسیلہ اور تیری مغفرت او بخشش کا پکا ذریعہ بنیں اور تجھ سے طالب ہوں ہر نیکی سے فائدہ اٹھانے اور حصہ لینے کا اور ہر گناہ اور معصیت سے سلامتی اور حفاظت کا۔ خدایا! میرے سارے ہی گناہ بخش دے اور میری ہر فکر اور پریشانی دور کر دے اور میری ہر حاجت جس سے تو راضی ہو، اس کو پورا فرما دے۔ اے سب مہربانوں سے بڑے مہربان!!‘‘ (ترمذی، ابواب صلاۃ الوتر، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ: 108/1)
اپنی ہر ضرورت کو پورا کروانے کے لیے یہ عمل بہت اہم ہے، ہر ضرورت کیلئے صرف حق تعالیٰ ہی سے مانگنا چاہئے۔ رب تعالی کے سوا کسی اور سے اپنی ضرورت کے بارے میں سوال نہیں کرنا چاہئے، کیوں کہ رب تعالیٰ کو یہ بات بالکل ناپسند ہے کہ اس کا بندہ کسی اور سے سوال کرے۔
قاضی شریحؒ کے واقعہ میں ایک اور سبق جو ہمیں ملا وہ یہ کہ ہمیشہ حق کا ساتھ دینا چاہئے، جس طرح قاضی شریحؒ نے گھوڑا بیچنے والے دیہاتی شخص کا ساتھ دیا تھا اور حضرت عمرؓ کا امیر المؤمنین ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہ دیا، کیوں کہ دیہاتی شخص زیادہ حق کی بات پر تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭