حضرت ذوالنون مصریؒ سے کسی نے پوچھا کیا حال ہے؟ فرمایا: بڑے مزے میں ہوں اور اس شخص کے مزے کا کیا پوچھتے ہو کہ اس کائنات میں کوئی واقعہ اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا، بلکہ جو واقعہ بھی پیش آتا ہے، وہ اس کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے، لہٰذا دنیا کے سارے کام میری مرضی کے مطابق ہو رہے ہوں۔
سوال کرنے والے نے کہا کہ یہ بات تو انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی حاصل نہیں ہوئی کہ دنیا کے تمام کام ان کی مرضی کے مطابق ہو جائیں؟ آپ کو یہ کیسے حاصل ہوئی؟
حضرت ذو النونؒ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے اپنی مرضی کو خدا کی مرضی میں فنا کر دیا ہے، جو خدا کی مرضی وہ میری مرضی اور دنیا میں سارے کام خدا تعالیٰ کی مرضی ہی سے ہوتے ہیں اور میری بھی وہی مرضی ہے اور جب سارے کام میری مرضی سے ہو رہے ہیں تو میرے مزے کا کیا پوچھنا، پریشانی تو میرے قریب بھی نہیں بھٹکتی، پریشانی تو اس شخص کو ہو جس کی مرضی کے خلاف کام ہوتے ہوں گے۔
شاہی وظیفہ لینے سے انکار
مولانا شیخ کلیم جہاں آبادیؒ عالم باعمل اور ولی کامل تھے۔ تالیف تفسیر اور تعلیم حدیث کے سوا آپ کا اور کوئی شغل نہ تھا۔ امرا و سلاطین کے پاس نہ کبھی گئے، نہ جانے کی خواہش کی بلکہ خود امراء و روساء ملنے کو آتے تھے اور آپ ان کی ملاقات سے پرہیز کرتے تھے۔ دہلی کے بادشاہ فرخ سیر نے آپ کے علم و فضل کا حال سن کر آپ کا وظیفہ مقرر کرنا چاہا، مگر آپ نے انکار کردیا اور صرف ڈھائی روپیہ ماہوار جو آپ کے مکان کا کرایہ آتا تھا، اسی پر گزر اوقات کرتے رہے۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ بعہد محمد شاہ بادشاہ 1142 ھ میں دہلی میں انتقال فرمایا۔ (مزارات اولیاء دہلی حصہ دوم ص 27)
٭٭٭٭٭