معارف و مسائل
سابقہ آیات میں اس عالم کی ہدایت اور اس میں قسط یعنی عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے انبیاء و رسل اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کرنے کا عمومی ذکر تھا، مذکور الصدر آیات میں ان میں سے خاص خاص انبیاء و رسلؑ کا ذکر ہے، پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا کہ وہ آدم ثانی ہیں اور بعد طوفان نوح کے دنیا میں باقی رہنے والی سب مخلوق ان کی نسل سے ہے، دوسرے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو ابوالانبیاء اور قدوۃ الخلائق ہیں، ان دونوں کے ذکر کے ساتھ یہ اعلان فرمادیا کہ آئندہ جتنے انبیائؑ اور آسمانی کتابیں دنیا میں آئیں گی، وہ سب انہی دونوں کی ذریت میں ہوں گی، یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی وہ شاخ اس فضیلت کے لئے مخصوص کر دی گئی، جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعد میں جتنے انبیاءؑ مبعوث ہوئے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں، وہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہیں۔
ان کے خصوصی ذکر کے بعد پورے سلسلہ انبیائؑ کو ایک مختصر جملے میں بیان فرمایا (آیت) ثُمَّ قَفَّیْنَا … الخ: آخر میں خصوصیت کے ساتھ آخر انبیاء بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کر کے حضرت خاتم الانبیائؐ اور آپؐ کی شریعت کا ذکر فرمایا گیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ان کے حواریین کی خاص صفت یہ بتلائی گئی ’’جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا انجیل کا اتباع کیا ہم نے ان کے دلوں میں رافت اور رحمت پیدا کر دی‘‘ یعنی یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر مہربان و رحیم ہیں ، یا پوری خلق خدا کے ساتھ ان کو شفقت و رحمت کا تعلق ہے ، رافت و رحمت کے دونوں لفظ ایک دوسرے کے ہم معنی اور مرادف سمجھے جاتے ہیں، یہاں مقابلہ کی وجہ سے بعض حضرات نے فرمایا کہ رافت شدت رحمت کو کہا جاتا ہے، گویا عام رحمت سے اس میں زیادہ مبالغہ ہے اور بعض نے فرمایا کہ کسی شخص پر رحمت و شفقت کے دو تقاضے عادۃً ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ اگر کسی تکلیف و مصیبت میں مبتلا ہے تو اس کی تکلیف کو دور کردیا جائے، اس کو رافت کہا جاتا ہے ، دوسرے یہ کہ اس کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ دے دی جائے، یہ رحمت ہے، غرض رافت کا تعلق دفع مضرت کے ساتھ ہے اور رحمت کا جلب منفعت کے ساتھ اور چونکہ دفع مضرت ہر اعتبار سے مقدم سمجھی جاتی ہے ، اس لئے عموماً جب یہ دونوں لفظ یک جا بولے جاتے ہیں تو رافت کو رحمت پر مقدم بولا جاتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭