خشیت الٰہی سے نکلنے والے آنسو

ام المومنین حضرت صفیہؓ کا جب رسول اقدسؐ کے ساتھ نکاح ہوا، تو اس وقت ان کی عمر صرف سترہ سال تھی۔ رسول اقدسؐ نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ حضرت صفیہؓ کو لے کر اپنی کسی زوجہ محترمہ کے گھر تشریف لائیں۔ وہ سیدھے حارثہ بن نعمان انصاریؓ کے گھر تشریف لائے اور وہیں قیام کیا۔ مدینہ کی خواتین نے اس نئی نویلی دلہن حضرت صفیہؓ بنت حیی کو اسی گھر میں آکر دیکھا، جس نے بھی دیکھا اس نے تعریفی کلمات ہی ادا کئے۔ کچھ دیر بعد حسب عادت رسول اقدس ؐ اپنی لاڈلی بیٹی فاطمہ الزہرائؓ کے گھر گئے۔ دونوں شہزادوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کو پیار کیا۔ پھر باری باری تمام ازواج مطہرات کے گھروں میں تشریف لے گئے۔
ام المومنین حضرت صفیہ ؓ جب اپنے گھر منتقل ہوئیں، تو انہوں نے اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ازواج مطہرات کے ساتھ گھل مل کر رہنے کا انداز اختیار کیا۔ آپ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ الزہرائؓ سے ٹوٹ کر پیار کیا۔ انہیں سونے کی بالیاں بطور تحفہ دیں۔ اس طرح سونے کے زیورات جو خیبر سے اپنے ہمراہ لائی تھیں ازواج مطہرات میں تقسیم کر دیئے۔ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت حفصہ ؓ کا قرب حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی، کیونکہ انہیں اعتراف تھا کہ یہ دونوں حضور علیہ السلام کی چہیتی اور عظیم المرتبت بیویاں ہیں۔
حضرت صفیہ ؓ نے ایک موقع پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے حضرت حفصہؓ کے بارے میں کسی نے بتایا کہ وہ مجھے یہودی کی بیٹی ہونے کا طعنہ دیتی ہیں، میں نے یہ بات رسول اقدس ؐ سے بطور شکایت عرض کر دی، تو آپؐ نے فرمایا:
تم نے اس سے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ تم مجھ سے بہتر کیسے ہو سکتی ہو۔ سنو! میرا خاوند محمد ؐ، میرا باپ ہارون علیہ السلام اور میرا چچا موسیٰ علیہ السلام ہیں۔
بخاری شریف میں یہ روایت مذکور ہے کہ نبی اکرم ؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہؓ رسول اقدس سے ملنے کیلئے مسجد نبویؐ میں تشریف لائیں۔ آپ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹہ آپ کے پاس بیٹھ کر باتیں کیں، پھر واپس جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ رسول اقدس ؐ بھی کھڑے ہو گئے۔ آپ انہیں الوداع کرنے کیلئے مسجد نبوی کے دروازے تک آئے۔ وہاں سے انصار کے دو شخص گزرے، دونوں نے رسول اقدس ؐ کو سلام عرض کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا ذرا ٹھہرو۔ سنو! یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے۔
دونوں کو یہ بات بڑی گراں گزری کہ ہمیں آپؐ کے بارے میں یہ کیسے گمان ہوسکتا ہے کہ ازواجات مطہرات کے علاوہ کوئی اجنبی خاتون آپؐ کے پاس آسکتی ہے۔
نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’بلاشبہ شیطان ابن آدم کے خون میں رچ بس جاتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی چیز نہ پھینک دے‘‘۔
ام المومنین حضرت صفیہؓ کثرت سے قرآن حکیم کی تلاوت کیا کرتی تھیں اور بسا اوقات خشیت الٰہی کا ان کے دل پر ایسا اثر ہوتا کہ زار وقطار رونا شروع کر دیتی تھیں۔
ابو نعیم اصبہانی حلیۃ الاولیاء میں رقم طراز ہیں کہ رسول اقدسؐ کی بیوی حضرت صفیہؓ کے حجرے میں چند صحابہ جمع ہوئے۔ انہوں نے خدا کا ذکر کیا، قرآن مجید کی تلاوت کی اور نوافل ادا کئے۔ حضرت صفیہؓ نے انہیں دیکھ کر ارشاد فرمایا: تمہارے نوافل، تلاوت، ذکر الٰہی سب درست، لیکن تمہیں خشیت الٰہی سے رونا کیوں نہیں آتا۔
دراصل ان کا مؤقف یہ تھا کہ اگر صحیح معنوں میں خدا کا خوف دل میں پیدا ہو جائے تو آنکھوں سے آنسو خود بخود بہنے لگتے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ خشیت الٰہی کی بنا پر آنکھوں سے نکلنے والے آنسو انسانی دل کے غسل کا باعث بنتے ہیں۔
ام المومنین حضرت صفیہؓ شفیق، بردبار اور رحم دل تھیں۔ علامہ ذہبیؒ اپنی کتاب سیر اعلام النبلا میں لکھتے ہیں: حضرت صفیہ ؓ کی ایک لونڈی تھی، اس نے امیر المومنینؓ سے شکایت لگائی کہ حضرت صفیہؓ ہفتے کے دن کا احترام کرتی ہیں اور یہودیوں سے صلہ رحمی سے پیش آتی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے آپؓ سے دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا جب سے حق تعالیٰ نے جمعہ کے فضائل سے روشناس کرایا ہے، میں نے ہفتے کے دن کا احترام چھوڑ دیا ہے۔ جہاں تک یہودیوں سے صلہ رحمی کا تعلق ہے، یہ بات صحیح ہے، میرے وہ رشتہ دار ہیں، فقط انسانی ہمدردی کے پیش نظر میں ان سے صلہ رحمی کا رویہ اختیار کرتی ہوں۔
آپ کو پتہ چلا کہ حضرت عمرؓ کو یہ باتیں ان کی کنیز نے بتائی ہیں۔ آپ نے اس سے پوچھا، تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے بڑے ہی معصومانہ انداز میں ڈرتے ہوئے کہا: مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔
آپؓ نے فرمایا: جائو تم آزاد ہو۔
حق تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اور غصے کو پی جانے والے، لوگوں سے درگزر کرنے والے، خدا نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
ام المومنین حضرت صفیہؓ علم و فضل کے اعتبار سے بھی بڑے ہی بلند مقام پر فائز تھیں۔ قرآن مجید کی بیشتر سورتیں انہیں یاد تھیں اور اکثر و بیشتر تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ 50 ہجری کو دنیائے فانی سے کوچ کیا اور مدینہ منورہ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ یہ امیر معاویہؓ کا دور حکومت تھا۔ ورثے میں انہوں نے ایک لاکھ درہم چھوڑے، جسے ان کی وصیت کے مطابق تقسیم کر دیا گیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment