حضرت مکحولؒ کہتے ہیں: حضرت عبادہ بن صامتؓ نے ایک دیہاتی کو بلایا تاکہ وہ بیت المقدس کے پاس ان کی سواری کو پکڑ کر کھڑا رہے، اس نے انکار کردیا۔ اس پر حضرت عبادہؓ نے اسے مارا، جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ اس نے ان کے خلاف حضرت عمر بن خطابؓ سے مدد طلب کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا: آپ نے اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: اے امیر المومنین! میں نے اسے کہا کہ میری سواری پکڑ کر کھڑا رہے، لیکن اس نے انکار کردیا اور مجھ میں ذرا تیزی ہے۔ اس لئے میں نے اسے مارا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آپ بدلہ دینے کے لیے بیٹھ جائیں۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہا کہ کیا آپ اپنے غلام کو اپنے بھائی سے بدلہ دلوا رہے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے بدلہ دلوانے کا ارادہ چھوڑ دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ حضرت عبادہؓ اسے اس زخم کے بدلے میں مقررہ رقم دیں۔
حضرت سوید بن غفلہؒ فرماتے ہیں: جب حضرت عمرؓ ملک شام تشریف لے گئے تو اہل کتاب میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا، جس کا سر زخمی تھا اور اس کی پٹائی ہو چکی تھی۔ اس نے کہا اے امیر المومنین! آپ میری جو حالت دیکھ رہے ہیں، یہ سب کچھ ایک مسلمان نے میرے ساتھ کیا ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ کو بہت زیادہ غصہ آیا اور حضرت صہیبؓ سے کہا جاؤ اور دیکھو کس نے اس کے ساتھ ایسا کیا ہے؟ اسے میرے پاس لاؤ۔
حضرت صہیبؓ نے جاکر پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ نے کیا ہے۔ حضرت صہیبؓ نے ان سے کہا کہ امیر المومنین کو تم پر بہت غصہ آیا ہوا ہے۔ تم حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاس جاکر ان سے کہو کہ وہ حضرت عمرؓ سے تمہارے بارے میں بات کریں (اور وہ تمہارے لئے ان سے سفارش کریں) کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ حضرت عمرؓ تمہیں دیکھتے ہی فوراً سزا دینے لگ جائیں گے۔
چنانچہ جب حضرت عمرؓ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پوچھا: صہیب کہاں ہیں؟ کیا تم اس آدمی کو لے آئے؟ حضرت صہیبؓ نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عوفؓ جا کر حضرت معاذؓ کو اپنا سارا قصہ بتا چکے تھے اور حضرت معاذؓ اس وقت وہاں آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت معاذؓ نے کھڑے ہو کر کہا: امیر المومنین! وہ مارنے والے عوف بن مالکؓ (جیسے قابل اعتماد انسان) ہیں، آپ ان کی بات سن لیں اور انہیں سزا دینے میں جلدی نہ کریں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت عوفؓ سے کہا: تمہیں اس آدمی کے ساتھ کیا بات پیش آئی؟ انہوں نے کہا: اے امیر المومنین! میں نے دیکھا کہ ایک مسلمان عورت گدھے پر سوار ہے، یہ پیچھے سے اس گدھے کو ہانک رہا ہے۔ اتنے میں اس نے اس عورت کو گرانے کے لئے اسے لکڑی سے چوکا مارا، لیکن وہ نہ گری۔ پھر اس نے اسے ہاتھ سے دھکا دیا۔ جس سے وہ عورت گر گئی اور یہ اس کے اوپر چڑھ گیا (اور اس کی عصمت لوٹ لی۔ میں یہ منظر برداشت نہ کر سکا اور میں نے اس کے سر پر مار دیا)
حضرت عمرؓ نے اس سے کہا: تم اس عورت کو لاؤ تاکہ وہ تمہاری بات کی تصدیق کرے۔ حضرت عوفؓ اس عورت کے پاس گئے تو اس کے باپ اور خاوند نے ان سے کہا: تم ہماری عورت کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہو؟ تم نے تو (یہ سار واقعہ سنا کر) ہمیں رسوا کردیا۔ لیکن اس عورت نے کہا: نہیں۔ میں تو ان کے ساتھ (حضرت عمرؓ کو خود بتانے) ضرور جاؤں گی۔ تو اس کے والد اور خاوند نے کہا (تم ٹھہرو) ہم جا کر تمہاری طرف سے ساری بات پہنچا آتے ہیں۔
چنانچہ وہ دونوں حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور بالکل ویسا ہی قصہ بتایا، جیسا حضرت عوفؓ نے بتایا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے حکم دینے پر اس یہودی کو سولی دی گئی اور حضرت عمرؓ نے فرمایا (اے یہودیو!) ہم نے تم سے اس پر صلح نہیں کی تھی کہ تم ہماری عورتوں کی عزتیں لوٹو اور ہم کچھ نہ کہیں، پھر فرمایا: اے لوگو! حضرت محمدؐ کی امان کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہو، لیکن ان میں جو کسی مسلمان عورت کی عزت پر حملہ کرے گا، اس کے لئے کوئی امان نہیں ہوگی۔
حضرت سویدؒ کہتے ہیں: یہ پہلا یہودی ہے، جسے میں نے اسلام میں سولی چڑھتے ہوئے دیکھا۔ (بحوالہ حیاۃ الصحابۃؓ جلد دوم)
٭٭٭٭٭