مصری حکومت ’’قارو ن کے خزانے‘‘ کی متلاشی

ضیاء الرحمن چترالی
جنرل سیسی کے منحوس سائے تلے قائم مصری حکومت سخت معاشی بحران کا شکار ہے۔ مصر پر بیرونی قرضوں کا حجم تقریباً سو ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ جبکہ بیروزگاری اور مہنگائی کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کیلئے کرپشن پر قابو پانے کے بجائے وزیر اعظم مصطفی مدبولی کی حکومت عجیب و غریب حربے آزما رہی ہے۔ پہلے آوارہ کتوں کو بیرون ملک فروخت کر کے زرمبادلہ کمانے کی تجویز سامنے آئی تھی۔ اس سے قبل آبادی 10کروڑ سے بڑھ جانے کو جواز بنا کر 3 سے زائد بچے پیدا کرنے والوں کو سرکاری مراعات سے محروم کرنے کا قانون بنایا جاچکا ہے۔ مگر معاشی بحران ہے کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ خلیجی ممالک نے اپنی تجوریوں کے منہ بند کردیئے ہیں، جو ابتدا میں جنرل سیسی پر ریالوں اور درہموں کی بارش کر رہے تھے۔ مگر وہ اب خود یمن جنگ کی وجہ سے معاشی دبائو کا شکار ہیں۔ اب مصری حکومت نے شیخ چلی کا خواب دیکھتے ہوئے بحران سے نکلنے کیلئے ’’قارون کا خزانہ‘‘ تلاش کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے۔ العربیہ کے مطابق مصر میں آثار قدیمہ تلاش کرنے والے ادارے ’’المجلس الاعلیٰ للآثار‘‘ (Supreme Council of Antiquities) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر مصطفی وزیری کا کہنا ہے کہ مصر میں کئی ایسے قدیم مقبرے اور دیگر مقامات ہیں، جن میں مدفون آثار قدیمہ کو ابھی تک تلاش نہیں کیا گیا۔ ان میں مقبرۃ الاسکندر الاکبر، مقبرہ ملکہ کیلوباترا اور کنوز قارون (خزانۂ قارون) شامل ہیں۔ انہوں نے اتوار کے روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے الفیوم میں واقع ’’کنوز قارون‘‘ پر بڑے پیمانے کی تحقیق کرانے اور کھدائی کرکے خزانہ برآمد کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ قارون کے خزانے کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق قارون کا خرانہ اتنا بڑا تھا کہ اس کی صرف چابیاں اٹھانے کیلئے طاقتور مردوں کی ایک بڑی جماعت کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اس لئے ’’قارون کا خزانہ‘‘ عربی اور اردو میں ضرب المثل بن گیا ہے۔ قارون، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چاچا کا لڑکا تھا۔ یہ بہت خوش آواز تھا۔ تورات بڑی خوش الحالی سے پڑھتا تھا۔ اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔ یہ چونکہ بہت مالدار تھا، اس لئے خدا کو بھول بیٹھا تھا۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا، اس نے اس سے بالشت بھر نیچا بنوایا تھا، جس سے اس کا غرور اور تکبر اور اس کی دولت ظاہر ہو۔ اس کے بہت سے خزانے تھے، ہر خزانے کی کنجی الگ تھی۔ قوم کے بزرگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ اتنا اکڑا مت، تو قارون نے جواب دیا کہ میں ایک عقلمند، زیرک، دانا شخص ہوں اور اسے خدا بھی جانتاہے، اسی لئے اس نے مجھے دولت دی ہے۔ قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر رزق برق عمدہ سواری پر سوار ہوکر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لیکر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا نکلا، اس کا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت و تجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے۔ قارون اس طمطراق سے نکلا، وہ بیش بہا پوشاک پہنے تھا، تب ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے، بنو اسرائیل کا مجمع تھا، سب کی نگاہیں اس کی دھوم دھام پر لگ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے پوچھا: اس طرح کیسے نکلے ہو؟ اس نے کہا: ایک فضیلت خدا نے تمہیں دے رکھی ہے، اگر آپ کے پاس نبوت ہے تو میرے پاس عزت ودولت ہے، اگر آپ کو میری فضیلت میں شک ہے تو میں تیار ہوں، آپ خدا سے دعا کریں، دیکھ لیجئے خدا کس کی دعا قبول کرتا ہے۔ آپ علیہ السلام اس بات پر آمادہ ہوگئے اور اسے لیکر چلے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں پہلے دعا کروں یا تو کرے گا؟ قارون نے کہا کہ میں کروں گا۔ اس نے دعا مانگی، لیکن قبول نہ ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ خدایا! زمین کو حکم کر جو میں کہوں مان لے۔ خدا نے آپؑ کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی کہ میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیا ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے زمین سے کہا: ’’اے زمین! اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے۔‘‘ وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے، پھر مونڈھوں تک، پھر فرمایا اس کے خزانے اور اس کے مال بھی یہیں لے آؤ، اسی وقت قارون کے تمام خزانے آگئے، آپؑ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے قارون کو خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ زمین جیسی تھی ویسی ہوگئی۔ اب مصر کے علاقے الفیوم میں واقع ’’کنوز قارون‘‘ نامی قدیم عمارت اور کھنڈرات اسی قارون کے محلات کے ہیں؟ اس بارے میں جب العربیہ نے الفیوم سے تعلق رکھنے والے ماہر آثار قدیمہ سید الشورۃ سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ الفیوم میں بیش بہا آثار قدیمہ زیرزمین موجود ہیں، جن پر ابھی کوئی کام نہیں ہوا۔ مگر ’’کنوز قارون‘‘ کا قرآن کریم میں مذکور قارون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حکام کو صرف نام سے دھوکہ ہوا ہے۔ دراصل یہ محل رومی دور حکومت میں کوئی بہت بڑی عبادتگاہ تھی۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے زمانے میں جب مصر اسلامی حکومت کے زیرنگین آیا تو اس کی سابقہ حیثیت ختم ہوگئی اور اسے محل کا نام دیا گیا۔یہ صرف اسی عبادتگاہ کے ساتھ نہیں ہوا۔ بلکہ یہاں جتنی بھی عبادتگاہیں تھیں، سب کے نام تبدیل کر دیئے گئے۔ یہ محل چونکہ بحیرہ قارون کے قریب واقع تھا، اس لئے قدیم مصریوں نے اسے قارون کے محل کا نام دیدیا۔ یہ محل یونانی دور میں 332 قبل مسیح کو تعمیر کیا گیا۔ جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے تقریباً ایک ہزار برس بعد کا قصہ ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment