سفارتی پاسپورٹ نوٹ کمانے کا ذریعہ بننے لگے

سدھارتھ شری واستو
سفارتی پاسپورٹ دنیا بھر میں نوٹ کمانے اور اسمگلنگ کا ذریعہ بننے لگے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد اور گروپوں کی جانب سے متعدد پسماندہ ممالک کے سفارتی پاسپورٹ خطیر رقم کے عوض خریدے جانے کے بعد ان کے مدد سے ممنوعہ ساز و سامان اور منشیات اسمگل کی جاتی ہیں۔ جرمن میڈیا نے بتایا ہے کہ جرائم پیشہ گینگ اب سفارتی پاسپورٹس کی آڑ میں چھپ کر اسمگلنگ کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ فرانسیسی جریدے دی لوکل کے مطابق فرانس میں سفارتی پاسپورٹ اسکینڈل کے ایک کیس کے تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ سفارتی پاسپورٹس نوٹ چھاپنے کی مشین بن گئے ہیں۔ جرمن دار الحکومت برلن میں بد عنوانی کیخلاف کام کرنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ افریقہ، وسط ایشیا اور کیریبین جزائر کی چھوٹی ریاستوں میں سفارتی پاسپورٹس کا کالا بازار لگا ہوا ہے، جہاں سے دو نمبر کاروباری افراد سمیت جرائم میں ملوث افراد اور گروہوںنے بھاری رقوم کی ادائیگی کے بعد سفارتی پاسپورٹ حاصل کرلئے ہیں اور ان پاسپورٹس کو یورپی یونین سمیت دنیا بھر میں اسمگلنگ کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ ان کا سامان اس لئے چیک نہیں کیا جاتا کہ ان کے پاسپورٹ پر سفارت کار لکھا ہوا ہوتا ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ایسے سفارتی پاسپورٹ کے حامل افراد بظاہر سفارت کار ہوتے ہیں لیکن وہ اسمگلر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد بہت زیادہ امیر ہوجاتے ہیں اور اسمگلنگ کا سامان کھیپ کی شکل میں ادھر ادھر کرتے ہیں اور ان کے اسمگلر گروہوں سے تعلق ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کی بابت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ وہ بہت امیر کاروباری شخصیات بھی ہوسکتی ہیں، جن کو حکمراں جماعتیں ’’عطیات کنندہ ‘‘ ہونے کے سبب سفارتی پاسپورٹ فراہم کرتی ہیں۔ جرائم کیخلاف بر سر پیکار ایک اور عالمی تنظیم گلوبل وٹنس نے تو سفارتی پاسپورٹس کے حوالہ سے دعویٰ کیا ہے کہ کئی بڑے منشیات اسمگلرز بھی سفارتی پاسپورٹس کے حامل بتائے گئے ہیں جن میں کمبوڈیائی بزنس مین تینگ بنما سر فہرست ہیں جن کے پاس اگرچہ سفارتی پاسپورٹ تھا، لیکن ان پر عالمی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات تھے اور امریکا میں ان کے داخلے پر پابندی عائد تھی۔ ایسا ہی ایک کیس قازقستان کی عدلیہ میں سامنے آیا تھا جس میں دو میاں بیوی الیاس اور مبینہ خراپاووف پر مالیاتی بد عنوانی کا الزام تھا لیکن دونوں میاں بیوی ’’وسطی افریقی جمہوریہ‘‘ کے سفارت کار بھی تھے اور ان کیخلاف ان کا سفارتی پاسپورٹ قانونی کارروائی کے آڑے آگیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سفارتی پاسپورٹس کے حوالہ سے اسکینڈل سامنے آنے کے بعد مڈگاسکر، موزمبیق، گیمبیا سمیت متعدد افریقی ریاستوں نے اپنے یہاں چھان بین کا عمل شروع کیا اور یورپی ممالک کے ہدایات کی روشنی میں 1,000سے زیادہ سفارتی پاسپورٹس منسوخ کئے ہیں۔ سفارتی پاسپورٹس کے غیر قانونی استعمال کے حوالہ سے تازہ واقعات میں سابق اسرائیلی وزیر برائے توانائی کے پاس سفارتی پاسپورٹ پایا گیا ،جبکہ جرمن ٹینس اسٹار بورس بیکر کیخلاف کی جانیوالی تحقیقات میں بھی یہ بات پایہ ثبوت ک وپہنچ چکی ہے کہ انہوں نے بھی رقوم کی ادائیگی کرکے دو نمبر طریقہ پر سفارتی پاسپورٹ حاصل کیا۔ فرانس کے صدر ماکرون کے ایک قریبی مشیر کے پاس سے بھی سفارتی پاسپورٹ بر آمد ہوا ہے جس سے وہ دنیا بھر میں سفارتی استثنیٰ اور پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے تھے۔ ٹرانسپیریسی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر کیسی کیلسو نے تصدیق کی ہے کہ ایسے سینکڑوں افراد دنیا بھر میں سفارتی پاسپورٹ کے مزے لے رہے ہیں اور ان کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے اہل ہرگز نہیں ہیں اور سفارتی پاسپورٹ کی آڑ میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو غیر قانونی کہلائی جاتی ہیں۔ جرمن ادارے کا دعویٰ کیا ہے کہ مختلف جزائر پر مبنی افریقی اور کیریبین ریاستوں سے متعدد سفارتی پاسپورٹس جاری ہوئے ہیں اور ان کو باقاعدہ رشوت لے کر جاری کیاگیا ہے اور بعد ازاں ان کو قیمتی ساز و سامان کی اسمگلنگ کیلئے استعمال کیاجارہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment