احمد خلیل جازم
راولپنڈی کے وسط میں واقع قدیم جامع مسجد شہر کی تاریخی مساجد میں گنی جاتی ہے۔ مسجد آٹھ ایکٹر پر مشتمل ہے اور اس میں دس ہزار لوگوں کے نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد 1896ء میں رکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت پیر مہرعلی شاہ صاحبؒ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا، پیر میرا شریف پنڈی گھیب اللہ بخش مہرویؒ بھی سنگ بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے۔ چونکہ پنجاب میں اس وقت سکھوں کا زور تھا اور ان کا مرکز جامع مسجد کے دائیں جانب باغ سرداراں تھا، جہاں آج بھی ان کے پرانے گردوارے کے مینار وغیرہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس تناظر میںجب مسلمانوں نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو سکھوں نے اس کے خلاف محاذ کھڑا کردیا۔ چنانچہ اس وقت افغان صدر کے بیٹے اور بعد میں افغانستان کے صدر بننے والے امان اللہ خان نے جو اس وقت نوجوان تھے انہوں نے پانچ سو افغان فوجیوں کے حفاظتی دستے کے ہمراہ آکر اس مسجد کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کی۔ جبکہ بعض تحقیق نگاروں کا کہنا ہے کہ سنگ بنیاد حافظ عبدالکریمؒ عیدگاہ شریف نے امان اللہ خان کے ہمراہ مل کر رکھا، یعنی امان اللہ خان کا کردار دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن حضرت مہر علی شاہؒ اور حافظ عبدالکریمؒ کے حوالے سے اتفاق نہیں ہو رہا۔ اس حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کہا جاتا ہے اس مسجد کے پہلے امام بہائوالحق قاسمی تھے جو شاعر و صحافی عطا الحق قاسمی کے والد تھے۔ لیکن اس پر بھی بعض تحقیق نگاروں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس پر بہت صائب دلائل پیش کیے ہیں۔
جامع مسجد، راولپنڈی کے معروف علاقے باغ سردارں سے متصل ہے۔ جب جامع مسجد روڈ میں داخل ہوں تو چند کوس چلنے کے بعد بائیں جانب جامع مسجد کا گیٹ دکھائی دیتا ہے جو اردگرد دکانوں کے رش میں غور کرنے پر دکھائی دیتا ہے۔ ان دکانوں کی وجہ سے گیٹ پیچھے کہیں دبا ہوا دکھائی دیتا ہے، بلکہ عین گیٹ کے سامنے سلائی مشین ٹھیک کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ تمام دکانیں اور مسجد محکمہ اوقاف کی زیر نگرانی ہیں۔ یہ مسجد مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شہکار ہے۔ جو آج کل زمانے کی دست برد کا شکار دکھائی دیتی ہے ، اگرچہ محکمہ اوقاف گاہے گاہے اس کی تزئین نو میں مصروف رہتا ہے اور ان دنوں بھی مسجد کے اندر تزئین کا کام ہورہا ہے۔ لیکن مسجد کے بنیادی تین گنبد خاصے خستگی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ مسجد کے بارہ چھوٹے بڑے مینار ہیں جن پر نیلا رنگ نمایاں ہے۔ اس کے اندرونی برآمدے کے 9 دروازے ہیں جب کہ برآمدے اور اندرونی دیوار پر ایسے خوبصورت نقش و نگار بنے ہوئے جنہیں دیکھ کر عقل دنگ اور انسان گنگ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس وقت مسجد کی امامت مولانا محمد اقبال رضوی کے پاس ہے جن کا تعلق تلہ گنگ سے ہے۔ مولانا اوقاف کے ملازم ہیں، لیکن مسجد کے حوالے سے تاریخ سے اچھی خاصی واقفیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے بتایا کہ ’’اس مسجد کی بنیاد 1896ء میں حضرت مہر علی شاہ صاحبؒ، پیر میرا شریف پنڈی گھیب اللہ بخش مہرویؒ اور امان اللہ خان نے رکھی۔ اس وقت پنڈی پر سردار سوہان سنگھ اور اس کے بھائی کی حکمرانی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سردارں ان کی بہن تھی جسے یہ باغ دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے اس علاقے میں اس باغ کی وجہ سے اسے باغ سردارں کہا جاتا تھا، جو آج بھی اسی نام سے شہرت رکھتا ہے۔ جب مسلمانوں نے مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا تو سکھوں نے بہت زیادہ مسائل پیدا کیے اور مسجد کی تعمیر میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں کہ مسلمانوںکو مجبوراً حضرت پیر مہرعلی شاہ گولڑہ شریفؒ سے رابطہ کرنا پڑا۔ چنانچہ پیر مہر علی شاہ ؒ، پیر میرا شریفؒ اور امان اللہ یہاں پہنچ گئے اور مسجد کا سنگ بنیادرکھا گیا۔ اس موقع پر حضرت مہرعلی شاہ ؒ نے خاص طور پر خواتین سے پردے کے پیچھے خطاب فرمایا اور کہا کہ میں آپ ماں بہنوں سے سونا، چاندی، پیسہ ٹکا نہیں مانگتا، صرف مسجد کی تعمیر کے لیے ایک رائے دیتا ہوں۔ انہوں نے خواتین سے فرمایا کہ آپ گھروں میں جب روٹی پکانے کے لیے آٹاگھوندھتی ہیں تو صبح شام اس آٹے میں سے ایک مٹھی آٹے کی مسجد کی الگ کر لیں۔ ایک ہفتے یا پندرہ دن بعد جب بھی آپ لوگوں کو مناسب لگے وہ آٹا مسجد انتظامیہ تک پہنچادیں۔ اسی طرح مردوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جو لوگ مستری کا کام جانتے ہیں، وہ اس حوالے سے نام لکھوا لیں۔ جو مزدوری کرنا چاہتے ہیں وہ بھی نام لکھوائیں کہ ہفتے میں مسجد کی تعمیرکے لیے ایک دن دیں۔ پندرہ دن میں ایک دن یا پھر ایک ماہ میں ایک دن دیں، مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالیں۔ لیکن جو دن لکھوائیں اس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں حصہ ضرور لیں۔ یوں لوگوں نے اپنے اپنے نام لکھوانے شروع کردئیے کہ کس نے کون سے دن آکر مسجد کے لیے ایک دن وقف کرنا ہے۔ دوسری جانب عورتوں نے صبح شام آٹا گھوندھتے وقت ایک مٹھی آٹے کی الگ کرنا شروع کردی۔ ساتویں دن جس قدر آٹا اکھٹا ہوتا وہ کسی نہ کسی طرح انتظامیہ تک پہنچا دیا جاتا۔ اس وقت جو مسجد کی تعمیر کے لیے کمیٹی بنائی گئی تھی ان میں غلام مصطفی گیلانی، ملک غلام حسین اور ادارہ فیض اسلام کے کچھ لوگ شامل تھے۔ یہ کوئی پانچ سات لوگ تھے جو عورتوں سے آٹا وصول کرتے اور پھر اس تمام آٹے کو جمع کرکے فروخت کردیا جاتا۔ جو رقم ملتی اس سے مسجد کے لیے میٹریل منگوایا جاتا۔ یہ کام اس جوش وخروش سے شروع ہوا کہ نہ صرف باغ سرداراں کے علاقے بلکہ پنڈی کے گرد و نواح کی خواتین نے بھی یہی معمول اپنا لیا۔ دوسری طرف مردوں نے ہفتے میں ایک روز مسجد کے لیے وقف کرنا شروع کردیا۔
یہ ایک موقف تو امام صاحب کا ہے۔ جبکہ دوسرا موقف پنڈی کے معروف تجزیہ نگار و محقق جبار مرزا کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’راولپنڈی کی سب سے قدیم جامع مسجد کلاں بازار میں واقع ہے جہاں حافظ عبدالکریمؒ عیدگاہ شریف والے جمعہ پڑھاتے تھے بعد ازاں وہاں مولانا غلام اللہ ؒ جمعہ پڑھاتے رہے۔ بعد ازاں مرکزی جامع مسجد کی تعمیر شروع کی گئی جو باغ سردارں میں بنائی گئی۔ اس مسجد کے سب سے پہلے امام قاضی فیملی سے ایک شخص تھے، جو معروف کالم نگار برگیڈیئر شمس الحق قاضی مرحوم کے والد تھے۔ البتہ مولانابہائوالحق کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اس کے پہلے امام تھے، تو میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ کیونکہ مولانا بہائوالحق 1947ء میں پاکستان آئے تھے۔ مولانا بہائو الحق قیام پاکستان سے قبل بھیرہ شریف میں آتے جاتے رہتے تھے، وہاں بگوی خاندان کا ایک پرچہ نکلتا تھا جسے ایڈٹ کرتے تھے اور پرچے کا مواد اشاعت کے لیے امرتسر لے جاتے تھے۔ پاکستان کے بننے کے بعد جب مولانا ہجرت کرکے یہاں آئے تو بگوی خاندان کے ہاں تین چار ماہ مہمان رہے اور بگویوں نے بھاگ دوڑ کرکے وزیر آباد میں انہیں کچھ پراپرٹی آلاٹ کرادی۔ وہاں سے لاہور سے مولانا بہائو الحق کو ماڈل ٹائون کی امامت ملی، جو الگ بحث ہے۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا بہائوالحق قاسمی نے یہاںکبھی امامت نہیں کرائی، جس طرح یہ بات غلط ہے اسی طرح یہ بات بھی میرے نزدیک بالکل درست نہیں ہے کہ مسجد کا سنگ بنیاد حضرت پیر مہرعلی شاہؒنے رکھا تھا۔ بلکہ میری تحقیق کے مطابق اس مسجد کی بنیاد حافظ عبدالکریمؒنے رکھی۔ ان کی حفاظت کے لیے امان اللہ نے پانچ سو لوگوں کا حفاظتی دستہ بھجوایا تھا، حافظ صاحب نے وہاں کھڑے ہوکر اس مسجدکی تعمیر کرائی تھی۔‘‘ ا س سوال پر کہ امان اللہ کا یہاں کیا کام تھا؟ جبار مرزا کا کہنا تھا کہ ’’انگریزنے ان کے والد حبیب اللہ کو قید کرکے پنڈی میں واقع نئے قلعے میں رکھا تھا۔ چنانچہ اس وقت ان کا بیٹا امان اللہ حافظ عبدالکریمؒ سے قرآن پاک سننے کے لیے آتا تھا۔ اسی دور میں جامع مسجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے حافظ صاحب سے معلوم ہوا کہ ہندو اور سکھ مل کر یہاں مسجد کی تعمیر میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ یہ وہی دو بھائی تھے موہن سنگھ اورسوہان سنگھ جن کا طوطی بولتا تھا اور وہ یہاں مسجد کی مخالفت کررہے تھے، چنانچہ پانچ سو افغان فوجیوں کا دستہ جو امان اللہ کا حفاظتی دستہ تھا، اس کی نگرانی میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔‘‘ تاریخی جامع مسجد کا قیام پاکستان کے دوران کوئی کردار رہا یا نہیں ، اور اس وقت جامع مسجد کی خستہ حالی بارے مزید تفصیلات امام مسجد سمیت دیگر ذرائع سے حاصل کی گئیں جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭