قطر مذاکرات میں افغان طالبان مطالبات منوانے پر ڈٹ گئے

محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے، جس میں طالبان اپنے مطالبات منوانے پر ڈٹ گئے ہیں۔ طالبان کی جانب سے امارات کے ایجنڈے کے علاوہ دیگر امور پر بات چیت کرنے سے انکار کردیا گیا ہے۔ ادھر امریکی فوج نے افغانستان سے انخلاء کیلئے پاکستان سے مدد مانگ لی ہے۔ واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان تعطل کا شکار مذاکراتی عمل ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے اور افغانستان کیلئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد پیر کی صبح ایک خصوصی طیارے کے ذریعے قطر پہنچے، جہاں انہوں نے طالبان نمائندوں سے مذاکرات کئے۔ انتہائی مختصر مذاکرات میں امریکی حکام اور قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے اراکین نے شرکت کی۔ اس موقع پر خلیل زاد نے افغان طالبان کے ساتھ اپنے چین، پاکستان، بھارت اور افغانستان کے دورے کے حوالے سے بات چیت کی اور انہیں تفصیلات سے آگاہ کیا۔ تاہم طالبان نے خلیل زاد پر واضح کیا کہ امریکا اگر محفوظ انخلاء چاہتا ہے اور افغانستان میں خانہ جنگی کو رکوانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے افغان طالبان کی بات ماننا پڑے گی اور افغان طالبان اب صرف دو نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کریں گے جس میں امریکی فوج کے انخلاء اور افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ افغان طالبان امریکا کے ساتھ افغانستان کے اندرونی معاملات پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے امریکی نمائندے کے ذریعے ڈالے جانے والے دبائو کو رد کر دیا اور کہا کہ امریکا مذاکرات کی آڑ میں اسلامی ممالک کے ساتھ طالبان کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے کیونکہ طالبان قطر اور سعودی عرب کی لڑائی میں حصہ دار نہیں بننا چاہتے ہیں۔ نہ ہی ایران کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ چلنے والے تنازعہ کا حصہ دار ہونا چاہتے ہیں۔ طالبان کی اول روز سے یہ خواہش ہے کہ ایران اور سعودی عرب، امارات، قطر اور سعودی عرب کے درمیان ان کے اندرونی معاملات اور اختلافات ختم ہو جائیں کیونکہ ان کے اختلافات سے اسلامی دنیا کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم طالبان اپنے برسوں کے تعلق اور ان ممالک قطر، سعودی عرب اور ترکی کے ذریعے دبائو ڈالے جانے کو بھی تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ افغانستان کے اندرونی معاملات سے ان ممالک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان اور ایران افغانستان کے نہ صرف ہمسایہ ممالک ہیں بلکہ پاکستان کا اسلامی دنیا میں اپنا ایک مقام ہے اور طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی سہولت کاری کے بعد امریکا پاکستان کے ذریعے طالبان پر دبائو ڈالنا چاہتا ہے، جو اچھی بات نہیں ہے۔ خلیل زاد نے اس موقع پر طالبان وفد کو بتایا کہ پاکستان کی سہولت کاری سے پوری دنیا مطمئن ہے اور پاکستان نے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات شروع کرنے کیلئے جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ تاہم طالبان نے قطر میں ان کے لیڈروں کی گرفتاریوں، دھمکائے جانے اور مختلف ممالک کے ذریعے ان پر دبائو ڈالے جانے کو امریکا کی بھونڈی کوشش قرار دیا ہے۔ افغان طالبان نے خلیل زاد سے کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت سے صاف اور واضح طور پر کہہ دیں کہ اس دو نکاتی ایجنڈے پر اگر امریکی حکومت معاہدہ کرنا چاہتی ہے تو افغان طالبان معاہدے کیلئے تیار ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے اندرونی معاملات اور مسائل پر بات چیت صرف افغانوں کے درمیان ہوگی اور موجودہ حکومت کو افغان طالبان تسلیم نہیں کریں گے۔ افغان طالبان نے خلیل زاد پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو قطر ہی میں مذاکرات ہوں گے اور آئندہ اگر کسی اسلامی ملک یا طالبان کے دوستوں کے ذریعے بے جا دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی تو طالبان مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیں گے۔ طالبان امریکا کے ساتھ خلوص نیت سے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن امریکا درمیان میں کبھی چین کو گھسیٹ کر لا رہا ہے اور کبھی بھارت کو گھسیٹ کر لا رہا ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک اس وقت افغانستان کے موجودہ جھگڑے کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی افغان طالبان کا ان کے ساتھ تعلق ہے۔ لہذا بھارت کو گھسیٹ کر لانے، اس کو افغانستان میں کردار دینے اور امریکا کی جانب سے مذاکرات میں دیگر ممالک کو شامل کرنے کی درخواست افغانستان کے اندرونی معاملات میں ایک طرح کی امریکی مداخلت ہے جو قابل قبول نہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں حقانی نیٹ ورک کے نمائندے ڈاکٹر فقیر محمد اور ان کے دیگر ساتھیوں نے شرکت نہیں کی بلکہ قطر دفتر کے سیاسی نمائندوں کو ہی اپنا نمائندہ قرار دیا۔ یوں مذکرات میں حقانی نیٹ ورک کے عملاً شریک نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں تاہم طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں افغان طالبان نے ابتدائی طور پر خلیل زاد کو اپنی تجاویز سے آگاہ کیا ہے۔ اگر اس پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو پھر مذاکرات میں حقانی نیٹ ورک کے نمائندے بھی حصہ لیں گے اور مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے گا۔ خلیل زاد تین دن تک اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا انتظار کرتے رہے۔ تاہم ایجنڈا واضح نہ ہونے اور امریکی چال کے تحت غنی حکومت کے نمائندوں کو ان مذاکرا ت میں شامل کرنے کی کوششوں کے بعد طالبان نے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ امریکا کا یہ منصوبہ تھا کہ اسلام آباد کے مذاکرات میں اگر افغان طالبان غنی حکومت کے نمائندوں کو بھیجنے کی اجازت نہیں دیں گے تو پاکستان کیخلاف پروپیگنڈے کا موقع مل جائے گا۔ تاہم افغان طالبان نہ صرف اس منصوبے سے آگاہ تھے بلکہ انہوں نے اسلام آباد میں خلیل زاد کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مذاکرات میں پاکستان کے کردار کے سبب اگر طالبان پاکستان کی بات نہ مانتے تو اسلام آباد کو مشکلات کا سامنا ہوتا اور اگر بات مان لیتے تو افغان طالبان کو نقصان ہوتا۔ اس لئے افغان طالبان نے پاکستان کو امتحان سے بچانے اور اپنے موقف میں ڈٹے رہنے کی وجہ سے اسلام آباد میں مذاکرات نہیں کئے جس کے بعد خلیل زاد کو مجبوراً قطر جانا پڑا۔ گزشتہ اٹھارہ برس میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ طالبان کی جانب سے دعوت نہ ملنے کے باوجود امریکی حکام طالبان کے سیاسی دفتر قطر پہنچ گئے۔ پہلی بار امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت نے وہ فارمولہ پیش کیا ہے جس کا امریکا اٹھارہ برس سے انتظار کر رہا ہے تاہم اس کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment