قسط نمبر46
حضرت محمد بن سیرینؒ:
’’محمد بن سیرینؒ جیسا مجھے کوئی متقی اور عالم دکھائی نہ دیا۔‘‘(مؤرق العجلیؒ)
تعارف:
ایک نیک شخص جن کا نام سیرینL تھا، حضرت انس بن مالکؓ کے غلام تھے، جب حضرت انس بن مالکؓ نے ان کو آزاد کر دیا تو انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔
حق تعالیٰ نے کاروبار میں برکت عطا فرمائی، چوں کہ کام بہت اچھا کرتے تھے، تانبے کی دیگ بنانے کے بڑے ماہر کاریگر تھے اور ہمیشہ ماہرین کی قدر کی جاتی ہے، جس شعبہ میں بھی ہوں، لہٰذا لوگ ان کے پاس کام کروانے آتے تھے۔
پھر شادی کا ارادہ کیا، تو ان کی نظر انتخاب حضرت ابوبکرؓ کی باندی صفیہؓ پر پڑی، جو ایک نیک خوش اخلاق اور خوش سیرت و صورت ہونے کے ساتھ ساتھ مدینہ کی خواتین میں ہر دل عزیز تھیں، خصوصاً امہات المومنینؓ کو اس باندی سے بہت پیار تھا۔
حضرت عائشہؓ کو تو سب سے زیادہ محبت تھی، عمر میں تو چھوٹی تھیں، لیکن عقل و سمجھ داری کے اعتبار سے بڑی عمر کی عورتوں کی طرح تھیں، اچھے طریقے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، سلیقہ و قرینہ سے (ہر ایک کو اس کا درجہ دینا) ہر چیز اپنی جگہ رکھنا اور دیگر امور میں سمجھ دار تھیں۔
حضرت صفیہؓ سے شادی:
حضرت سیرینؒ نے امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ سے نہایت ہی ادب واحترام سے ان کی کنیز کا رشتہ طلب کیا، حضرت صدیق اکبر ؓ اپنی کنیز کا رشتہ مانگنے والے شخص کا اس طرح اخلاق و دین کے اعتبار سے جائزہ لینے لگے، جس طرح ایک شفیق باپ اپنی بیٹی کا رشتہ مانگنے والے کا جائزہ لیتا ہے، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، کیوں کہ صفیہؓ انہیں اولاد کی طرح عزیز تھی۔
پھر یہ بچی بھی ان کے پاس ایک امانت تھی، جو حق تبارک و تعالیٰ نے ان کی ذمہ داری میں دی تھی، انہوں نے حضرت سیرینؒ کا بڑی گہری نظر سے جائزہ لیا اور اچھی طرح ان کے حالات کی چھان بین کی، جن سے ان کے متعلق پوچھا کہ ان میں سے حضرت انس بن مالکؓ سرفہرست تھے۔ ان سے جب دریافت کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’امیر المومنین! صفیہؓ کی اس سے شادی کر دیجئے، آپ اس سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں، میں نے اسے صحیح معنون میں دین دار، اچھے اخلاق والا اور خود دار پایا ہے۔
میرا اس کے ساتھ اس وقت سے رابطہ ہے، جب سیدنا خالد بن ولیدؓ نے معرکہ ’’عین التمر‘‘ میں کام یابی کے بعد چالیس جنگجو قید کرلیے تھے اور انہیں غلام بنا کر مدینہ منورہ لائے تھے، جب انہیں تقسیم کیا گیا تو سیرین میرے حصے میں آیا۔ خدا کا شکر کہ میں اس سے بہت خوش رہا۔ یہ میری سعادت ہے کہ اس جیسا وفادار شخص مجھے خدمت کے لئے ملا۔‘‘
صدیق اکبرؓ نے حضرت سیرینؒ سے حضرت صفیہؓ کی شادی کی حامی بھرلی اور آپؓ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اس کی رخصتی سادگی کے ساتھ، لیکن خوشی اور محبت کے اظہار کے ساتھ اس طرح کروں گا، جس طرح ایک شفیق باپ اپنی چہیتی، لاڈلی بیٹی کی رخصتی کرتا ہے، انہوں نے شادی کے موقع پر ایک سادہ پروقار تقریب کا اہتمام کیا۔
اس سے پہلے مدینہ منورہ میں اس جیسی تقریب بہت کم کسی دلہن کے لئے ہوئی ہوگی، کیا خوش قسمتی تھی اس مبارک جوڑے کی کہ اس تقریب میں صحابہ کرامؓ کثیر تعداد میں شریک ہوئے، ان میں اٹھارہ بدری صحابہؓ بھی تھے۔
مبارک ہو اس جوڑے کو کہ نکاح اس کا کاتب وحی اور اس امت کے سب سے بڑے قاری حضرت اُبی بن کعبؓ نے پڑھایا اور دولہا کے لئے خیر و برکت کی دعا کی، جس پر صحابہ کرامؓ نے آمین کہی۔
خوش قسمتی ہے اس دلہن کی کہ تین ازواج مطہراتؓ نے اس کا بناؤ سنگھار کیا اور بڑے شوق سے اس کے خاوند کے گھر رخصت کیا۔ خدا تبارک وتعالیٰ نے اس مبارک شادی کے نتیجے میں ماں باپ کو ایک ایسا نیک سعادت مند بچہ عطا کیا، جو بیس سال کی عمر میں تابعین کی جماعت کا سردار اور مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بن کر ابھرا۔
آیئے ہم آپ کو اس عظیم تابعی کا قصہ بتلاتے ہیں۔ آپ قصہ پڑھنے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھ کر خدا سے دعا مانگیں، کہ خدایا! ہمیں بھی وہ صفات عطا فرمایئے، جو آپ نے محمد بن سیرینؒ کو عطا کی تھیں۔ (آمین) (جاری ہے)