چوتھا حصہ
کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اس نو مسلمہ کا کہنا تھا کہ یہ ہیں اس کلمہ شہادت کے الفاظ، جس پر میں ایمان لائی ہوں۔ خالق کائنات کے کئی نام ہیں۔ اس کی حکمت ہر جگہ عیاں ہے اور ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی محبت، صبر و تحمل اور ایک دوسرے سے قربت میں اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس نے امریکا کے معاشرے، جس میں نفسا نفسی کی جنگ جاری ہے، سے نکال کر، ہمیں اسلامی کنبے کی عظمت اور وقار کی طرف راہنمائی کی اور ہمیں اس کنبے کا حصہ بنایا۔ یہ روحانی طور پر شخصیت کی نشوونما اور شاید نفسیاتی طور پر مطلوب نشوونما کو ظاہر کرتا ہے۔
اسلام کی جانب میرے سفر کا آغاز تب ہوا، جب ایک معروف ڈائریکٹر ٹونی رچرڈسن ایڈز سے فوت ہوگئے۔ مسٹر رچرڈسن ایک ذہین اور عالمی سطح پر مشہور پروفیشنسٹ تھے، میں جب چودہ سال کی تھی تو کھیل ’’Luther‘‘ کے بیک اسٹیج پر ان سے ملاقات ہوگئی تھی۔
میں نے ہمیشہ کہانیاں اور ڈرامے وغیرہ لکھ کر، اس سے خود اپنے اندر اور اپنے دنیاوی امور کے درمیان بھی روحانی جذباتی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ دنیا جو میرے بچپن کے حالات کی وجہ سے مجھے بے حد ظالم نظر آتی تھی۔ اس دُنیا سے لڑنے کے بجائے، میں نے اپنے اندر پائی جانے والی کشمکش کو ڈراموں کے ذریعے ظاہر کیا۔
امریکی معاشرے سے تعلق میں کمی:
جب میں نے سترہ سال کی عمر میں اسٹیج کریڈٹس یعنی پروڈکشن اور اسٹیج ریڈنگ اکٹھا کرنا شروع کیا تو ہمیشہ ہی دل میں یہ امید ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی دن میرے بچپن کی یہ خواہش ضرور پوری ہوجائے گی کہ مسٹر رچرڈسن کے ساتھ کام کرسکوں۔
لیکن جب وہ انگلینڈ سے ہم جنس پرستی کی وبا اور اس کے افسوسناک نتائج اپنے ساتھ امریکا لائے اور یہاں کی مخلوط محفلوں، اور ایڈز نے انہیں مار دیا تو اس کے ساتھ ہی امریکی معاشرے سے میرے تعلق میں مزید کمی آگئی۔ میں نے اخلاقی رہنمائی کی خاطر امریکی اور مغربی معاشرے سے باہر، اسلامی تہذیب کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔
مسلمانوں کا قرب اور مؤذن کی آواز:
میری ماں کے آبائو اجداد ہسپانوی یہودی تھے، جو مسلمانوں کے درمیان رہتے تھے۔ یہاں تک کہ یہودی آبادی کو معاشرے سے نکال دیا گیا۔ میری یادوں میں، جو مجھے بے حد گہرائی تک محسوس ہوتی ہیں، مؤذن کی آواز بھی اتنی ہی گہری ہے، جتنی کہ سمندر کی خاموشی، بحری جہازوں کی نقل و حرکت، صحرائی گھوڑوں کے سموں کی آواز اور محکومیت کی شکل میں محبت کی یقین دہانی۔
جب میں نے عثمانی خلیفہ کے اس انسانی برتائو کی کہانی پڑھی، جو اس نے یہودیوں کے انخلاء کے وقت یہودی مہاجرین کے ساتھ روا رکھا تھا تو میرے اندر ایک کہانی نے جنم لیا اور ڈرامے کی شکل اختیار کر گئی۔ خدا تعالیٰ نے میرے حصولِ علم میں میری رہنمائی کی اور مجھے اسلام کے بارے میں بڑے بڑے لوگوں مثلاً سائوتھ بے اسلامک ایسوسی ایشن کے امام صدیقی، رحیمہ کی بہن حسین اور میری پیاری منہ بولی بہن ماریہ عابدین سے سیکھنے کا موقع ملا۔
حسنِ اخلاق کے اثرات:
ماریہ بہن پیدائشی امریکی ہیں، مسلمان ہیں اور امریکی شہر SBIA کے رسالے ’’اقرائ‘‘ کی لکھاری ہیں۔ میرے تحقیقاتی انٹرویو کا آغاز سان فرانسسکو کے مشن ڈسٹرکٹ میں ایک حلال قصائی کی دکان پر ہوا۔ جہاں میری ملاقات پہلی مسلمان خاتون سے ہوئی، جس کو دیکھ کر اسلام سے متعلق میری انڈر اسٹینڈنگ بے حد متاثر ہوئی۔ یہ گاہک خاتون حجاب میں تھیں، ان کا برتائو انتہائی نرم اور پروقار تھا، وہ چار زبانیں پڑھ، لکھ اور بول سکتی تھیں۔
ان کی ذہانت اور غرور و تکبر سے پاک شخصیت و برتائو نے میرے اس عملی سفر کی ابتداء پر ہی بہت گہرا اثر ڈالا کہ اسلام کس طرح لوگوں کے اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس وقت اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ نہ صرف ایک ڈراما ہوجائے گا، بلکہ ایک نیا انسان بھی جنم لے لے گا۔ (جاری ہے)