عباس ثاقب
بشن دیپ میری باتوں میں اب زیادہ گہری دلچسپی لے رہا تھا۔ ’’پھر کیا ہوا بھائی؟ میرا مطلب ہے آپ کی یہ بات سن کر اس نے کیا ردِ عمل ظاہر کیا؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اس نے وہی کیا جس کی مجھے پہلے سے توقع تھی۔ یعنی فوراً پستول نکال کر مجھے گولی مارنے کا سوچا، تاکہ اس کا پول کھلنے کا خطرہ ختم ہو جائے۔ لیکن میں اس سے پہلے ہی اس کے پستول کا میگزین نکال چکا تھا۔ چنانچہ جب اس کا پستول بیکار نکلا اور میں نے جواب میں اپنے ریوالور سے اس کا نشانہ لیا تو وہ حیرانی و پریشانی سے میری شکل دیکھتا رہ گیا‘‘۔
بشن دیپ نے خوشی اور ہیجان سے لبریز لہجے میں کہا۔ ’’زبردست، میں تو، میں تو نرا شہری بابو سمجھ رہا تھا، لیکن تم تو کمال کے بندے نکلے‘‘۔
تب مجھے ادراک ہوا کہ میرے اس روپ سے امر دیپ تو واقف ہے، بشن دیپ کو اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ میں نے بات بنائی۔ ’’بھائی، میں انگلینڈ میں ضرور پلا بڑھا ہوں، لیکن ہوں تو سنگھ قوم کا سپوت ناں! اور ابھی آپ نے خود ہی کہا ہے کہ سنگھ کا تو مطلب ہی شیر ہے۔ تو پھر میں ڈرپوک کیسے ہو سکتا ہوں؟ ویسے سچی بات بتاؤں۔ ایکشن، ایڈونچر اور جاسوسی انگلش فلمیں دیکھنے کے شوق کی وجہ سے میں اس طرح کے کئی داؤ پیچ جانتا ہوں‘‘۔
بشن دیپ نے جوشیلے لہجے میں کہا۔ ’’انگریزی فلم تو میں بھی شوق سے دیکھتا ہوں۔ خاص طور پر مار دھاڑ والی۔ بہت سارے ڈائیلاگ سر پر سے گزر جاتے ہیں، لیکن کہانی سب سمجھ آتی ہے‘‘۔ پھر اسے یاد آیا کہ ہم کس موضوع پر بات کر رہے تھے۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم اس کشمیری جنگی جوان کا بتا رہے تھے؟ تم نے اسے بندوق کے نشانے پر لے کر بے بس کر دیا تھا، پھر کیا ہوا؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اس نے جب خود کو پوری طرح بے بس پایا تو مایوس ہوکر پوچھنے لگا کہ میں اس سے کیا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تمہیں صرف یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں تمہارا دشمن نہیں ہوں۔ کیونکہ میں انگلینڈ کا شہری ہوں اور مجھے یہاں کی سرکار اور ریاست سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ تمہارے ساتھ دو تین دن گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تم ایک اچھے انسان ہو، اور میں ہر اچھے انسان کی قدر کرتا ہوں۔ اگر تم اپنا کشمیر آزاد کرانے کی جدوجہد کر رہے ہو تو یقیناً تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا ہوگا اور میں تمہارے موقف کی حمایت کرتا ہوں۔ اس لیے محض اتفاقاً معلوم ہوجانے والا تمہارا یہ راز تمہارے دشمنوں تک پہنچانے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے‘‘۔
بشن دیپ نے میری بات پوری ہونے پر پوچھا۔ ’’کیا اس نے تمہاری بات کا یقین کرلیا؟ کیونکہ ایسے لوگ بہت کم کسی پر اعتبار کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اسے اعتبار کرنا پڑا۔ یہ سب باتیں کرنے کے بعد میں نے اپنا ریوالور نیچے کرکے اپنی جیب سے اس کے پستول کا لوڈ میگزین نکال کر اس کے حوالے کر دیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ دل ہی دل میں قائل ہو چکا ہے۔ جب اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس کا میگزین اس کے حوالے کیا تو اسے میری باتوں پر یقین آگیا۔ اور اس نے بھی اپنا پستول ایک طرف رکھ دیا۔ بعد میں اس سے کھل کر بات ہوئی اور اس نے آزادی کی جنگ میں پہلی بار شمولیت کی وجہ اور کشمیر میں تعینات قابض ہندوستانی فوج کے خلاف اپنی کارروائیوں کے بارے میں بتایا‘‘۔
بشن دیپ کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوا کہ وہ اپنا دلی جوش بمشکل دبا پا رہا ہے۔ میرے خاموش ہونے پر اس نے کہا۔ ’’آپ تو میرے اندازے سے زیادہ ذہین اور دور اندیش نکلے۔ اس کشمیری بندے سے ملاقات کے بعد اسے خالصتان تحریک کے سرکردہ رہنماؤ ں سے ملانے کا اچھوتا خیال آپ کی سمجھ داری کا ٹھوس ثبوت ہے۔ آپ مجھے بس دو دن کا وقت دے دیں۔ مجھے ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان سے ملنے ہوشیار پور کے قصبے ٹانڈا جانا پڑے گا، جہاں ان کا ڈینٹل کلینک ہے۔ وہ بظاہر سیاسی جدوجہد کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان ہی کی خفیہ سرپرستی میں ہتھیار بند خالصتان تحریک چل رہی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’لیکن آپ نے تو ماسٹر تارا سنگھ جی کو خالصتان تحریک کا سب سے بڑا لیڈر بتایا تھا!‘‘۔
بشن دیپ نے قدرے دفاعی لہجے میں جواب دیا۔ ’’دیکھو بھائی، ماسٹر تارا سنگھ جی کو خالصتان تحریک کا سب سے بڑا رہنما اس لیے مانا جاتا ہے کہ سنگھوں کے لیے الگ دیش کے نعرے میں سب سے طاقت ور آواز اسی کی رہی ہے۔ ہندوستان بھر کے گردواروں کا انتظام سنبھالنے والی تنظیم کا کرتا دھرتا بھی وہی ہے۔ سکھوں میں اس کے لیے بہت عزت ہے، کیونکہ پچھلے تیس برس میں وہ سکھوں کے حقوق کی جدوجہد کے نتیجے میں تیس بار جیل جاچکا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تو بھائی، پھرآپ کو ماسٹر تارا سنگھ سے ملاقات کرنا چاہیے، ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان کے پاس کیوں جارہے ہو؟‘‘۔
میرے سوال پر بشن دیپ کا چہرہ بجھ سا گیا۔ ’’بات یہ ہے بھائی کہ، اپنی قوم کے لیے الگ دیس یعنی خالصتان کے لیے ما سٹر تارا سنگھ کی شخصیت، سوچ اور نظریہ رفتہ رفتہ نئی نسل کے سکھوں میں اپنی مقبولیت کھوتا جارہا ہے۔ اس نے پورے جوش و خروش سے سکھ قوم کے لیے الگ دیس یعنی خالصتان کا نعرہ لگاکر قوم کی امنگیں جگائیں اور قوم کا سربراہ بن گیا۔ لیکن پھر اپنے مطالبے پر جما رہنے کے بجائے اپنی سیاسی جماعت اکالی دل بناکر محض خود مختار پنجاب صوبے پر آگیا، اور اب تو سنا ہے وہ اپنے مطالبے کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھنے والا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ ایک طرح سے نہرو سرکار کی مرضی کے راستے پر چل رہا ہے اور خالصتان کے قیام کا مطالبہ عملاً ترک کرچکا ہے؟‘‘۔
بشن دیپ نے کوئی جواب دینے کے بجائے محض اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ میں نے اگلا سوال کیا۔ ’’ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان کی خالصتان تحریک سے متعلق سرگرمیاں نہرو سرکار کے علم میں نہیں ہیں؟ میرا مطلب ہے وہ منظر عام پر رہ کر تو یہ سب نہیں کر سکتے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭