امت رپورٹ
حکومت کی غیر سنجیدگی کے نتیجے میں سانحہ ساہیوال کے خلاف دوبارہ احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ بدھ کی شام متاثرہ خاندانوں کے سینکڑوں رشتہ دار، احباب اور ہمدرد گھروں سے باہر نکل آئے اور ابتدائی اطلاعات کے مطابق مشتعل عوام نے فیروز پور روڈ دونوں اطراف سے بلاک کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں میٹرو بس سروس بھی بند ہوگئی۔ شام کے سائے گہرے ہوتے ہی متاثرہ خاندانوں کے رشتہ داروں اور دیگر احباب نے معروف فیروز پور روڈ کے دونوں اطراف پر رکاوٹیں کھڑی کر کے احتجاج کا آغاز کیا اور رات ہونے تک لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوچکی تھی۔ ذیشان فیملی کے ایک قریبی دوست اویس نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جیسے جیسے لوگ کام کاج سے واپس آرہے ہیں، مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اور یہ کہ اگر پولیس نے پُرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا تو حالات بگڑنے کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔ احتجاج کی وجہ بیان کرتے ہوئے اویس کا کہنا تھا کہ ’’حکومت جان بوجھ کر ابتدائی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر نہیں لا رہی۔ کیونکہ اس میں واقعہ کے اصل ذمہ داران کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور اسی طرح مقتول ذیشان کے دہشت گرد ہونے کے ٹھوس شواہد بھی سامنے لائے جائیں۔ حکومت نے ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے اب تک جو باتیں کی ہیں، انہیں کسی طور پر بھی شواہد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فیصل آباد میں ہلاک کئے جانے والے جس دہشت گرد کی گاڑی کو ذیشان کے زیر استعمال بتایا گیا ہے، یہ گاڑی ذیشان نے سات آٹھ ماہ پہلے خریدی تھی اور اس وقت سے ہر روز گھر کے باہر کھڑی ہوتی تھی۔ اتنے طویل عرصے تک کسی کو خیال نہیں آیا کہ یہ گاڑی دہشت گردوں کے زیر استعمال رہی ہے؟ جبکہ مبینہ دہشت گرد کے ساتھ ذیشان کی جو سیلفی میڈیا میں چلائی جارہی ہے، وہ اس قدر مدھم اور مبہم ہے کہ خود گھر والے بھی اس تصویر کو پہچاننے سے قاصر ہیں‘‘۔ اویس کا مزید کہنا تھا کہ جب تک جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ سامنے نہیں لائی جاتی اور ذیشان کے خلاف ٹھوس شواہد فراہم نہیں کئے جاتے، احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر حکومت ذیشان کے دہشت گرد ہونے سے متعلق ٹھوس شواہد فراہم کر دیتی ہے تو پھر متاثرہ خاندان چپ چاپ اپنے گھر میں بیٹھ جائے گا۔ لیکن بغیر ثبوت کے ذیشان کو دہشت گرد قرار دے کر متاثرہ فیملی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
آخری اطلاعات آنے تک احتجاج ختم کرانے کے لئے انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری تھا۔ ادھر متاثرہ فیملی کے ایک اور رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنما متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کے لئے تو ضرور آ رہے ہیں، لیکن کوئی بھی پارٹی عملی طور پر متاثرین کا ساتھ دینے پر تیار نہیں۔ متاثرہ فیملی کے اس اہم رکن کے مطابق اب تک خلیل کے گھر پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سینئر رہنما حمزہ شہباز، پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری سمیت دیگر آچکے ہیں۔ خلیل کے گھر والوں سے بات کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے یقین دہانی کرائی کہ متاثرہ فیملی کا بھرپور ساتھ دیں گے اور ان کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائی جائے گی۔ اسی طرح قمر الزمان کائرہ اور مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی متاثرہ فیملیوں سے اظہار ہمدردی کیا اور ان کے غم میں برابر کا شریک ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن ان میں سے کسی پارٹی نے اب تک عملی طور پر متاثرہ فیملی کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ صرف زبانی کلامی ہمدردی جتاکر اور تصاویر بنوانے کے بعد پلٹ کر نہیں پوچھا۔ متاثرہ فیملی کے رشتے دار کے بقول اس ظالمانہ کارروائی کے خلاف اگر یہ سیاسی پارٹیاں کم از کم اپنے طور پر چھوٹا موٹا مظاہرہ کر دیتیں تو اس سے مظلوم خاندانوں کو ڈھارس ملتی کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔
دوسری جانب سانحہ ساہیوال کے متاثرہ دونوں خاندانوں سے تعزیت کے لئے آنے والوں کا تانتا اب تک بندھا ہوا ہے۔ اس المناک واقعہ کے بعد سے یہ دونوں خاندان اہل لاہور کے لئے اجنبی نہیں رہے۔ تعزیت کرنے والے ہوں یا میڈیا کے لوگ، کسی کو گھر تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا کہ مقامی لوگ فوری ایڈریس بتادیتے ہیں۔ بارش کے باعث مقتول کی گلی اور محلے کے دیگر مقامات پر پانی اور کیچڑ جمع ہے۔ لہٰذا وہاں پہنچنے والے لوگوں کو دشواری کا سامنا ہے۔ تعزیت کرنے والوں کے علاوہ میڈیا کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی تاحال خلیل اور ذیشان کے گھروں کے باہر موجود ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز کی دو درجن سے زائد ڈی ایس این جی نے واقعہ کے بعد سے وہاں مورچہ لگا رکھا ہے۔ جبکہ اس سے تین گنا زائد تعداد میں پولیس اہلکار بھی مقتولین کے گھروں کے باہر موجود ہیں۔ ان میں بیشتر سادہ لباس میں ہیں، تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوجائے۔ لیکن اس ڈیوٹی کے علاوہ مذکورہ اہلکار میڈیا کو متاثرہ فیملیوں کے اہل خانہ سے دور رکھنے کا ’’فریضہ‘‘ بھی ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول حکومت نہیں چاہتی کہ ساہیوال واقعہ کو مزید کوریج اور ہائپ ملے۔ لیکن فوری طور پر بظاہر یہ حکومتی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ خلیل اور ذیشان ایک ہی محلے میں رہائش پذیر اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ خلیل کا مکان بمشکل چار پانچ مرلے پر تعمیر ہے۔ تین منزلہ مکان کے گرائونڈ فلور پر مقتول خلیل کی فیملی رہتی تھی۔ دوسری منزل پہ منجھلے بھائی جلیل اور تیسری منزل پر سب سے چھوٹے بھائی کامران کی فیملی رہائش پذیر ہے۔ چند گلیاں چھوڑ کر ذیشان کا چھوٹا سا مکان واقع ہے۔ ذیشان کی چند برس قبل شادی ہوئی۔ ایک جواں سال بیوہ، ایک چھوٹی یتیم بچی، ایک بوڑھی اور تقریباً معذور ماں اور ایک پریشان حال بھائی اب اس مکان کے مکین ہیں۔ خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں خاندان غریب ہیں۔ ان کے پیچھے برادری بھی نہیں۔ جبکہ سیاسی پارٹیاں یا انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار تنظیمیں بھی ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ ایسے میں یہ دونوں متاثرہ خاندان انصاف کے حصول کے لئے زیادہ مزاحمت نہیں کر سکیں گے۔ ذیشان کی بوڑھی ماں پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ’’وہ قیامت کے روز ذمہ داران کا گریبان پکڑے گی‘‘۔ ہر بے بس اور غریب مظلوم کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے۔ ساہیوال کی المناک داستان بھی بے بسی کی علامت اس قدیم جملے کی نذر ہو جائے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭