امت رپورٹ
ساہیوال میں کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی فائرنگ سے والدین سمیت جاں بحق ہونے والی لاہور کی رہائشی تیرہ سالہ اریبہ خلیل بہترین نعت خواں تھی۔ ساتویں کلاس میں زیر تعلیم اریبہ محلے کے بچوں کو جمع کر کے محفل نعت منعقد کرتی تھی اور اپنے جیب خرچ سے شیرینی تقسیم کرتی تھی۔ اس نے نعتوں پر مشتمل ایک ڈائری بھی بنا رکھی تھی۔ معصوم بچی نہ صرف خاندان بھر کی لاڈلی تھی، بلکہ پورے محلے کی آنکھ کا تارا تھی۔ اہل خانہ کے مطابق وہ ساتھی طالب علموں میں انتہائی مقبول تھی اور اساتذہ کو بھی اس پر ناز تھا۔ اس نے اپنے والدین سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ خوب محنت سے پڑھائی کرکے ڈاکٹر بن کر دکھائے گی۔
سانحہ ساہیوال میں خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ اور تیرہ سالہ بیٹی اریبہ کی ہلاکت پر علاقے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لاہور میں متاثرہ خاندان کے علاقے میں رہنے والے لوگ سی ٹی ڈی پولیس کی سفاکانہ کارروائی پر شدید مشتعل ہیں اور ساتویں جماعت کی طالبہ اریبہ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں متاثرہ خاندان کے محلے والوں کا کہنا تھا کہ اریبہ انتہائی فرمانبردار اور لائق طالبہ تھی۔ وہ بہت محنت سے پڑھائی کر رہی تھی اور مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ جبکہ اس کو نعت خوانی کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ اکثر گھر میں محلے کے بچوں کو جمع کرکے محفل نعت منعقد کرتی تھی۔ اس نے نعتوں کی ایک ڈائری بنائی ہوئی تھی، جس میں درجنوں نعتیں لکھی ہوئی تھیں۔ جبکہ بہت سی نعتیں اس کو یاد تھیں۔
مقتول بچی کی چچی صادقہ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اریبہ ان کے بہت قریب تھی۔ وہ اس کو اپنی سگی بیٹی کی طرح پیار کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تھی ہی اتنی اچھی کہ سب لوگ اس سے پیار کرتے تھے۔ وہ ہر ایک کا خیال رکھتی تھی اور سب سے محبت کرتی تھی۔ کسی بھی عزیز، چاچو، چاچی یا کزن کو کوئی تکلیف ہوتی تو وہ تڑپ اٹھتی ہے۔ اگر اس کے چاچو کبھی رات کو دیر سے گھر آتے تو وہ انہیں کھانے وغیرہ کا پوچھتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اریبہ بہت خوش الحانی سے نعتیں پڑھتی تھی۔ اس نے نعتوں کی ڈائری بنا رکھی تھی، جس میں اپنے ہاتھ سے درجنوں نعتیں لکھ رکھی تھیں اور کئی نعتیں اس کو زبانی یاد تھیں۔ وہ اکثر اپنی دوستوں اور کزنز کو جمع کر کے نعت اور میلاد کی محفلیں منعقد کرتی تھی اور اپنے جیب خرچ سے مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتی تھی۔ اریبہ کی چچی صادقہ نے بتایا کہ نعت کی محفل سجانے میں اریبہ کی مرحوم والدہ اس کی بہت مدد اور حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی سے کہتی تھیں کہ نعت خوانی نبی ﷺ سے محبت کا اظہار ہے اور پیارے پیغمر سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اریبہ کی مرحوم والدہ کہتی تھیں کہ ہم دین دار لوگوں کی اولادیں ہیں اور ہم نے اپنے بچوں کو بھی اسی راستے پر ڈالنا ہے۔ صادقہ کا کہنا تھا کہ اریبہ پڑھائی پر بہت توجہ دیتی تھی اور اس نے کئی کلاسوں میں پوزیشن حاصل کی تھی۔ اریبہ سے متعلق باتیں کرتے ہوئے صادقہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ دیر توقف کے بعد انہوں نے گلوگیر لہجے میں بتایا کہ اربیہ کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ جبکہ اس کے مرحوم والد کی بھی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بنے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ آپ محلے کے کسی بھی گھر میں چلے جائیں، ہر گھر میں بے گناہ مارے گئے ان افراد کا ماتم ہو رہا ہے۔ کئی گھروں میں کھانا نہیں پکا ہے۔ یہ بتاتے ہوئے صادقہ ہچکیاں لیتے ہوئے رونے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معصوم اریبہ تو اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ شادی میں شرکت کیلئے بورے والا جانے کیلئے نکلی تھی۔ وہ ایک ماہ سے شادی کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اربیہ کی مرحومہ ماں نے اپنی بیٹی کیلئے کپڑوں کے کئی جوڑے سلوائے تھے۔ جب وہ گھر سے جارہی تھی تو بہت خوش تھی۔ لیکن وہ زندہ واپس نہیں آئی۔ انہوں نے بتایا کہ ہلاکت کے بعد معصوم بچی کے کانوں سے بالیاں بھی کھینچی گئی تھیں۔ صادقہ نے اپنی لاڈلی بھتیجی سے آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’وہ مجھ سے ضد کر رہی تھی کہ میری بیٹی مناہل کو اپنے ساتھ لے کر جائے گی۔ میں نے اس کو کہا تھا کہ ابھی تم جائو، ہم بعد میں آئیں گے۔ جس پر وہ مسکراتے ہوئے سب سے مل کر گئی تھی۔ میں اس کا مسکراتا چہرہ کبھی نہیں بھول سکوں گی‘‘۔
اریبہ کی کزن کلثوم جوکہ کالج کی طالبہ ہیں، کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اربیہ کی یاد بہت ستاتی ہے۔ اس کو ہر کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرنے کا جنون تھا۔ جب اس نے چھٹی کلاس میں ٹاپ کیا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اس نے چہکتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئندہ بھی فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ کلثوم نے بتایا کہ ساتویں کلاس کے فرسٹ ٹرم میں اریبہ کے کچھ نمبر کم آئے تھے۔ مگر بعد میں اس نے خوب محنت کر کے بہت اچھے نمبر حاصل کئے تھے۔ کلثوم کا کہنا تھا کہ اریبہ کو نعت خوانی کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ نہ صرف اپنے گھر میں نعت خوانی کی محفل سجاتی تھی بلکہ محلے کے لوگ بھی اس کو میلاد کی محفل میں نعتیں پڑھنے کیلئے بلاتے تھے اور وہ خوشی خوشی جاتی تھی۔
اہل خانہ کے مطابق اریبہ خلیل اپنے محلے میں واقع البراق ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ اس کے اسکول کے اساتذہ اور ساتھی طلبا و طالبات بہت غمزدہ ہیں۔ اریبہ کی کلاس فیلو صدف نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس کی سہیلی لاکھوں میں ایک تھی۔ وہ کبھی کسی سے خفا نہیں ہوتی تھی۔ اور اگر کوئی دوست خفا ہو جائے تو آگے بڑھ کر اس کو منا لیتی تھی۔ وہ بہت محبت کرنے والی تھی۔ البراق اسکول کے پرنسپل ذیشان علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اریبہ بہت لائق فائق طالبہ تھی۔ اس نے چھٹی کلاس میں پوزیشن لی تھی، لیکن ساتویں جماعت کے پہلے ٹرم میں اس کے نمبر کچھ کم آئے تو اس کے اساتذہ پریشان ہوگئے تھے۔ جس پر اریبہ نے اپنی کلاس ٹیچر سے کہا تھا کہ وہ خوب محنت کر کے کلاس میں اپنی کارکردگی بہتر کرلے گی۔ اور اس نے ایسا ہی کیا۔ پرنسپل ذیشان علی کا کہنا تھا کہ ’’اریبہ ہماری آنکھ کا تارہ تھی۔ کیونکہ وہ ہمارے اسکول کی لائق ترین طالبہ تھی۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر وہ زندہ رہتی تو تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرتی۔
٭٭٭٭٭